گو کہ 45 فیصد رمضان گذر گیا لیکن برکتیں اور ثواب دارین سمیٹنے کے لیے ابھی بھی 55 فیصد رمضان تو ابھی باقی ہے۔ یہ باتیں ’لندن رمضان ریڈیو‘ کی ترغیبی ٹرانسمیشن میں بتائی جا رہی تھیں۔
رمضان ریڈیو عرصہ 18 سال سے لندن سمیت برطانیہ بھر کی لوکل کونسلوں (میونسپل کارپوریشنوں، بلدیات وغیرہ) میں 40 دن کے خصوصی لائسنس پر چلتے ہیں اور یہ لائسنس متعدد مساجد نے لے رکھے ہیں۔ ان میں سحری ، افطار اور تراویح کے وقت اور اُس کے بعد تک ان کی نشریات جاری رہتی ہیں۔ انگریزی، عربی، اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی گجراتی سمیت اور بھی کئی زبانوں میں یہ نشریات ایک عجب سا سماں باندھتی ہیں۔
رمضان کیا آیا ہے خریداری کی ایک سونامی بھی چلی آئی ہے۔ دور اندیشوں اور حالات کو تاڑ لینے والوں نے دال چاول، گھی و خوردنی تیل سمیت انواع و اقسام کی اجناس کے علاوہ چھوٹے بڑے ایر ٹائٹ ڈبوں، کنستروں یا بوتلوں پیپوں میں بند جام جیلی پنیر ڈرائی میٹ، مارجرین و مکھن تک ہاتھ کے ہاتھ جمع کر لیے ہیں تاکہ آئندہ چھ سے آٹھ مہینوں اور بعض جوائنٹ فیملی ہاوزیز میں تو سال ڈیڑھ سال تک دے مارا مار شاپنگ کی پھر نوبت نا آئے۔
نہیں ہرگز نہیں، ایسا نہیں کہ اس کا واحد سبب یہاں لندن و برطانیہ بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کے سبب لاک ڈاؤن ہے بلکہ بڑا اور اہم سبب، یقین کریں، برکتوں کے مہینے رمضان کا آجانا ہے جس نے برطانیہ کے نامی گرامی سٹوروں سمیت تمام چھوٹے بڑے چین سٹوروں میں ایسی تمام کھانے پینے کی چیزوں کے دام 15 سے 40 فیصد تک کم کر دیے ہیں جو مسلم کمیونٹی عموماً اور رمضان میں خصوصاً کثرت سے استعمال کرتی ہے۔ جنہیں آپ نا صرف رو برو خرید سکتے ہیں بلکہ ’آن لائن‘ شاپنگ کے ذریعہ بھی منگوا سکتے ہیں۔
ان میں سے کم از کم چار سب سے بڑے سٹوروں میں جو چند چیزیں میں نے خود دیکھیں اور نوٹ کیں وہ یہ کہ رمضان کی ان اشیا میں چوائس بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ اس میں پرانے ٹکسالی برانڈ ناموں سمیت تقریباً ہر آئٹم کے نئے ناموں کی بھر مار چلی آئی ہے۔ مثلاً سات آٹھ مختلف ناموں والے چھوٹے اور بڑے دانے والے سفید، براؤن اور باسمتی چاول اور ان میں بعض مکس چاول ایسے بھی جو اس سے پہلے دیکھنے میں نا آئے تھے۔ مثلاً وہ مکس جس میں، لانگ گرین، ایزی کوکنگ، موٹا انکل بین، براون اور باسمتی ملا کر چھوٹے بڑے پیکٹ سے لے کر 5 اور 10 کلو والے ٹاٹ (پٹسن) یا عام کپڑے سے بنے مضبوط تھیلوں میں بیچا جا رہا ہے۔
دالوں میں مسور، مونگ، ماش، اُڑد اور چنے سمیت شاید ہی کوئی ایسی دال ہو جو چھلکے یا بے چھلکے والی اور دھلی دھلائی، یہاں شیلف میں موجود نا ہو۔ یہی حال چھلکوں والے اور کابلی چنوں سمیت مٹر، سیم، گوار اور لوبیا سمیت دیگر خشک بیجوں کا بھی ہے جنہیں رات بھر یا چند گھنٹوں پہلے بھگو کر رکھ دو تو ہرے بھرے، پکنے کے لیے تیار اور تازہ دم لگنے لگتے ہیں۔ تقریباً یہی کیفیت تازہ اور فریز ہوئی کٹی کٹائی سبزیوں مثلاً بھنڈی، گاجر، ترئی، پھول گوبی، بند گوبی، بروکلی،گھییے (کدّو) کریلے، ساگ اور پالک کی ڈلیوں کی ہے جو پکنے کے لیے تیار ہیں اور تو اور پسا ہوا ادرک لہسن اور مہین مہین کٹی، لال و سفید پیاز تک فریز ہوئی سلیقے سے لگی ہوئی ہے۔
ناانصافی ہوگی اگر میں گوشت خور احباب کے لیے ہاتھ کے ہاتھ اُن کے سامنے کاٹ کر بنائے ہوئے لیمب، مٹن، چکن، بیف اور تازہ مچھلی سمیت انہی چیزوں کے فروزن کنڈیشن میں ملنے کا ذ کر نا کروں۔ ان تمام چیزوں کے چھوٹے بڑے پیکٹ بھی آئے ہیں جن پر واضح طورپر ’حلال‘ کی مارکنگ ہے اور یہ چیزیں فٹافٹ بک بھی رہی ہیں لیکن ’ڈرم سٹکس‘ (مرغی کی ٹانگوں)، نبلز، چکن ونگز اور چکن یا ٹرکی کے قیمے پر زیادہ زور ہے۔ تازہ اور فروزن دونوں طرح کی مچھلی، رہو، پلّہ، سیمن وغیرہ کی بھی ’سیل‘ ہے اور اس پر رش بھی اُتنا ہی زیادہ ہے۔
خوردنی تیل کی چند ایک قسموں کا تو مجھے پہلے سے علم تھا لیکن رمضان کے موقعے پر داموں میں 30 سے 40 فیصد کمی کے ساتھ جو خوردنی تیل سامنے آئے ان میں عام ویجیٹیبل آئل، سرسوں، ناریل ، زیتون اور تلوں کا تیل شامل ہے۔ خالص گھی بھی 30 فیصد کم قیمت پر نظر آیا اور یہی حال کھجور، سعودی، مصری، ارونی، لبنانی، اور پاکستانی کھجّی سمیت آٹھ قسم کی تو میں نے خود گنی۔ خشک پھلوں، آلوچہ، خو بانی، انجیر، کیلے کی قاشوں اور اخروٹ و بادام سمیت پستہ اور کاجو بھی بے شمار ہے لیکن چلغوزہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو بڑے چین سٹورز کے مینیجروں سے (صحافی کی حیثیت سے) کھُلی کھُلی بات چیت سے پتا چلا کہ (خود ان کے اپنے سٹاف سمیت) ایسے بے شمار کسٹمرز ہیں جو مسلم نہیں ہیں لیکن رمضان مبارک کی خصوصی شیلف والے علاقے میں مسلم کمیونٹی کے لیے رکھی گئی اشیا کی وہ بھی دل بھر کے شاپنگ کر رہے ہیں جنہیں قانونی طور پر روکا بھی نہیں جا سکتا۔ ان خریداروں میں ایسے بھی ہیں جو مشرقی یورپ سے آئے عارضی یا جُزوقتی مزدور ہیں یا یومیہ اجـرت پر کام کرتے رہے ہیں۔ اب کام کاج بند ہو جانے کے سبب ادھار لے کر کام چلا رہے ہیں اور ایسوں کے لیے رمضان کی یہ رعایتی قیمتیں بڑی کارگر ثابت ہوئی ہیں۔
یہ بھی پتا چلا کہ خود متمول مسلم خاندانوں نے ہفتہ وار راشن دینے کے لیے 20 پچیس خاندانوں کی کفالت کی۔ گمنام رہتے ہوئے ذمہ داری قبول کر رکھی ہے اور یہ فیصلہ کار خیر کے طور پر سٹور مینیجر، علاقائی مسجد، مقامی کلیسا کے فادر یا رمضان ریڈیو کے ذمہ دار افرد کے سپرد کر دیا ہے کہ کس کو کیا دیا جائے۔ ان کی دی ہوئی ایک پرچی جانے کتنے خاندان کا پیٹ بھر رہی ہے جن کا راشن ان کے گھروں پر خاموشی کے ساتھ پہنچایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پتا چلا کہ رمضان کے تیسرے عشرے میں زکواۃ کی مد میں کافی خطیر رقم آ رہی ہے (اس میں سے 40 فیصد پہلے ہی آچکی ہے) جو بلاتفریق تقسیم ہوگی اور مزید راشن کی صورت میں بھی دی جائے گی۔ ضرورت مندوں کی ان گنت، خانگی ایسی باتیں بھی دو دن میں مکمل کی جانے والی دو نشستوں میں سننے میں آئیں کہ آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔ یہ دل گرفت بات چیت کہ جس کی بنیاد پر میں نے یہ سطور لکھی ہیں مجھے جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی رہی گو کہ اجازت کے ساتھ یہ کیسیٹ پر ریکارڈ بھی ہیں لیکن صیغہ راز میں رکھنے کے وعدہ کے ساتھ میں نے انہیں محض محفوظ کر لیا ہے۔
لیکن رمضان مبارک کے مہینے میں بر طانیہ جیسے نام نہاد ترقی یافتہ ملک میں ’خدا کی بستی‘ کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جانے رمضان کا یہ مہینہ، دنیا پھر میں کس کس کا پیٹ کس کس طرح سے بھرتا ہے اور اگر ’رمضان نا ہوتا تو کیا ہوتا۔‘