حالیہ دنوں میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر فرقان الحق کی کرونا (کورونا) وائرس کے باعث وفات ہونے کے بعد سندھ میں ہسپتالوں میں ایمرجنسی اور انتہائی نگہداشت یونٹس کے نظام میں نا اہلی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا انڈپینڈنٹ اردو کو دیے ہوئے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ سندھ میں صرف کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ہی دو ہزار 14 وینٹی لیٹر ہیں اور ان میں سے کئی وینٹی لیٹرز استعمال میں نہیں کیونکہ ابھی تک سندھ میں کرونا وائرس کے کیسز کی پیک نہیں پہنچی ہے۔
ہم نے پوچھا کہ اتنے وینٹی لیٹرز موجود ہونے کے باوجود بھی کرونا وائرس کی وجہ سے سانس کی تکلیف میں مبتلہ ایک شخص ، جو پیشے سے ڈاکٹر بھی تھے، آخر کیوں علاج سے محروم رہے؟ نہ صرف نجی ہسپتال بلکہ سرکاری ہسپتال سول سے بھی انہیں انکار کر دیا گیا، تو اس بارے میں ان کا کیا کہنا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عذرا پیچوہو کا کہنا تھا: ’یہ ڈاکٹر فرقان کی اپنی غلطی تھی کہ وہ آخری وقت میں ہسپتال کیوں آئے پہلے کیوں نہیں؟ ان کی عمر بھی ذیادہ تھی اور عمر رسیدہ افراد کو کرونا وائرس کی وجہ سے سانس کا ذیادہ مسئلہ ہو جاتا ہے۔ ان کی سانس جلد ہی اکھڑنے لگتی ہے اس لیے انہیں فوری طور پر وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ پہلے ہسپتال آجاتے تو ایسا نہ ہوتا۔‘
سندھ میں اس وقت گیارہ ہسپتال ایسے ہیں جہاں کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے جن میں سے نو ہسپتال کراچی میں ہیں جن میں آغان خان، انڈس، سول، ڈاؤ اوجھا، پی این ایس شفا، ضیاالدین، چغتائی لیب، ایس آئی یو ٹی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ ہسپتال شامل میں۔ اس کے علاوہ لیاقت میڈیکل ہسپتال حیدرآباد اور میڈییکل انسٹیٹیوٹ گمبٹ میں بھی کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔
ہیلتھ منسٹر عذرا پیچوہو کا سندھ میں کرونا وائرس کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے کہنا تھا :’اگلے سات سے آٹھ دنوں میں سندھ میں کیسز کی تعداد مزید دگنی ہونے کے امکانات ہے۔ اس وقت کیسز کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور آنے والوں دنوں میں کیسز بڑھ کر چودہ ہزار سے تجواز کر جائیں گے۔ اگر لاک ڈاؤن میں مزید نرمی کی گئی تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔‘
مکمل انٹرویو دیکھیے۔