وفاقی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے باعث عائد لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس آج منعقد ہوا لیکن نہ تو قائد ایوان اور نہ ہی قائد حزب اختلاف نے اس میں شرکت کی۔
11 مئی کو اجلاس بلوانے کی درخواست پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت نوے اراکین اسمبلی نے دستخط کیے لیکن اجلاس سے ٹھیک ایک دن پہلے شہباز شریف کو اُن کے ڈاکٹر نے اسمبلی میں شرکت سے روک دیا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی خصوصی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اس حوالے سے جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ شہباز شریف کینسر کے مریض رہے ہیں اس لیے اُن کی قوت مدافعت کم ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز نے انہیں عوامی جگہ پر جانے سے سختی سے منع کیا ہے۔'
پیر کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر پرویز خٹک، وفاقی وزیر فواد چوہدری، وفاقی وزیر خسرو بختیار، صاحب زادہ محبوب سلطان بھی غیر حاضر تھے۔ جبکہ اپوزیشن کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور رانا تنویر بھی اجلاس میں شریک نہیں ہیں اور پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نیب حراست میں ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔ یہ اجلاس اپوزیشن کے مطالبے پر منعقد ہوا ہے۔
وفاقی وزیر سائنس فواد چوہدری نے آج اجلاس سے قبل ہی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بیان دیا تھا کہ 'کئی اراکین اور عملے کے ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا، پہلے دن سے میں ویڈیو لنک پر سیشن کا کہہ رہا ہوں اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر پارلیمانی کمیٹی نے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا اور ملکی سیاسی قیادت کو غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا۔'
واضح رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی خود کرونا وائرس کا شکار ہیں اس لیے اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں معمول کے ایجنڈے موخر کر کے صرف کرونا وائرس پر بات کو ترجیح دی گئی۔
سب سے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تقریر کی اور کرونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات بتائے۔ اس کے بعد اپوزیشن کی جانب خواجہ آصف نے اسمبلی میں اظہار خیال کیا۔ اس کے بعد وزیر مملکت حماد اظہر، پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو اور وفاق سے مراد سعید نے اظہار خیال کیا۔
قومی اسمبلی میں کی گئی اہم تقاریر کا خلاصہ:
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے 30 سال اپنی جوانی پیپلز پارٹی کو دی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو وفاق کی بات کرتی تھی۔ پیپلز پارٹی سے پہلے وفاق کی خوشبو مگر آج صوبائی تعصب کی بو آرہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اب کوئی سندھ کارڈ، صوبائی کارڈ نہیں صرف پاکستان کارڈ چلے گا۔'
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم نے لاک ڈاؤن کو نرم کیا تو اس پر بھی تنقید کرتے ہوئے ہم پر طعنہ زنی کی گئی۔ ہم نے مشاورت کے ساتھ لاک ڈاؤن کو نرم کیا ہے، تمام صوبوں سے مشاورت کی گئی۔ ہم اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، کوئی ملک اس وائرس کو شکست نہیں دے سکتا۔ ان سب اقدامات کے ساتھ عوام کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ اگر عوام نے تعاوں نہ کیا تو لاک ڈاؤن کو دوبارہ سخت کرسکتے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے آنے والی تجاویز کو ہم حکمت عملی کا حصہ بنائیں گے۔ اس حوالے سے تمام صوبوں کو بھی وفاق کے ساتھ دست تعاون بڑھانا ہوگا۔'
ن لیگ سے خواجہ آصف نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈاون کیا ہے؟ ہمیں بھی بتایا جائے یا ملک میں لاک ڈاون ہے یا نہیں ہے، درمیانی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں باربار 18ویں ترمیم کا ذکر کیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری کا معاملہ حل کیا ہے۔ جو معاملات اتفاق سے طے کئے گئے ان کو اس طرح سے کھولنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کورونا پر مکمل کنفیوژن کا شکار ہے۔'
بلاول بھٹو نے وزیراعظم عمران خان کے اسمبلی میں شرکت نہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'آج ہمارے وزیراعظم بھی اس ایوان میں نہیں ہیں حالانکہ وہ لیڈر آف دی ہاؤس ہیں۔ اگر آپ لیڈر ہیں تو جو آپ دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود بھی کرنا چاہیئے' انہوں نے مزید کہا کہ جب سے یہ وبا آئی اس وقت سے ہم نے کہا کہ اس ایشو پر کوئی سیاست نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ہمارے صوبہ سندھ کے وزرا، عوام کی کردار کشی تک کی گئی۔ خود ایک حکومتی وزیر نے کہا کہ سندھ کی عوام کی جہالت کی وجہ سے کورونا لگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے لاک ڈاون سمارٹ ہینڈسم وغیرہ جو بھی کرنا ہے کرلیں لاک ڈاون مزید نرم ہوا تو متاثرین اور اموات بڑھیں گی۔'
بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاقی حکومت اور ریاست کو تمام صوبوں کے شعبہ صحت میں بہتری کے لیے وسائل دینا ہوں گے۔ وفاقی حکومت جب صوبائی حکومت کو کہے گی کہ آپ کو پیسہ نہیں دیں گے تو ہم اپنے لئے نہیں عوام کے لیے مانگ رہے ہیں انہوں نے کہا آپ ہمیں گالی نہ دیں اور صوبہ سندھ کی کردار کشی بند کریں۔'
وفاقی وزیر مراد سعید نے اپنی تقریر کے آغاز میں اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ اُن کے اس بیان کے بعد اپوزیشن اراکین اسمبلی ایوان چھوڑ کر باہر نکل گئے اور ایوان میں صرف حکومتی اراکین ہی موجود رہے۔
مراد سعید کی تقریر کے بعد اسمبلی کا اجلاس بدھ دن بارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
دوران اجلاس تحریک انصاف کے رُکن اسمبلی عمران خٹک سماجی فاصلے کو خاطر میں نہ لائے تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کہا کہ سماجی فاصلہ ہر صورت برقرار رکھیں۔ آج کسی کو نام کی ترتیب سے بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی یہاں کچہری لگانے کی ضرورت ہے اگر کسی نے آپس میں مجلس کرنی ہے تو ایوان سے باہر چلے جائیں۔' واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں کرونا وائرس حفاظتی تدابیر کو سامنے رکھتے ہوئے نشستوں کے درمیان فاصلہ رکھا گیا تھا۔ چند اراکین کے علاوہ تقریباً تمام اراکین اسمبلی نے ماسک پہن رکھے تھے۔ تقاریر کرنے والے اراکین نے تقریر کے وقت ماسک اتارا لیکن بعد میں پھر پہن لیا۔
کرونا ٹیسٹ اجلاس میں شرکت کی شرط تھی
قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین کے کورونا ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن جن اراکین نے ٹیسٹ نہیں کروایا ان کے ٹیسٹ موقع پر لیے گئے۔ گیٹ نمبر ون کے باہر قومی ادارہ صحت کاعملہ موقع پر داخلے سے پہلے اراکین اسمبلی ، عملے اور صحافیوں کے کرونا ٹیسٹ کیے۔ لیکن موجود صحافی عرفان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کہ ٹیسٹ تو ابھی لیے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک دن بعد آئے گا اور اگر بعد میں کسی کا مثبت ٹیسٹ آ جاتا ہے لیکن ابھی ٹیسٹ کرنے کے بعد عمارت کے اندر داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے تو کیا یہ رسک نہیں؟ سینیٹر میاں عتیق، دیگر اراکین اسمبلی جنہوں نے پہلے کرونا ٹیسٹ نہیں کروایا تھا انہوں نے بھی عمارت میں داخلے سے پہلے این آئی ایچ کی ٹیم کو کرونا سیمپل دیا۔ مختلف صحافیوں نے بھی کرونا ٹیسٹ کروایا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں کیا احتیاطی تدابیر اپنائی گئیں
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سینیٹائزر واک تھرو گیٹ اور ٹمپریچر معلوم کرنے کی مشین لگا دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشین ہر شخص کی تصویر بھی لے رہی ہے اور درجہ حرارت بھی نوٹ کر رہی ہے۔ درجہ حرارت چیک کرنے کے بعد اراکین کو احاطے کے اندر جانے دیا جا رہا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی پارلیمنٹ عمارت داخلے سے قبل اپنا درجہ حرارت چیک کروایا۔ تھرمامیٹر اورسینیٹائزر گیٹ نمبرایک کے سامنے لگائے گئے ہیں جہاں سے اراکین پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اندر داخل ہوئے۔
عمومی طور پر پارلئمنٹ کے دو دروازوں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے گیٹ نمبر 1 جہاں سے اراکین اسمبلی گزرتے ہیں اور میڈیا بھی آمدورفت رکھتا ہے جبکہ گیٹ نمبر 5، جسے زیادہ تر پارلیمنٹ کا عملہ اور میڈیا اندر داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے گیٹ نمبر 1 کو صرف اراکین اسمبلی کے لیے مختص کیا گیا جبکہ محدود تعداد میں عملہ اور میڈیا کو گیٹ نمبر 5، جو کہ پارلیمنٹ کی عقبی جانب واقع ہے وہاں سے جانے کی اجازت تھی۔ گیٹ نمبر پانچ پر صرف جراثیم کش واک تھرو گیٹ نصب کیا گیا ہے جبکہ درجہ حرارت چیک کرنے والی مشین نہیں لگائی اس لیے بعد ازاں صحافیوں کو بھی گیٹ نمبر 1 سے گزرنے کی اجازت دے دی گئی۔