اگر کبھی پاکستان کرکٹ کے بارے میں سوپ اوپیرا بنایا گیا تو عمر اکمل والدین کے لیے رسوائی کا باعث بننے والے بچے کے کردار کے لیے اچھے امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں۔
تنازعات کا شکار رہنے والے باصلاحیت بلے باز کو حال ہی میں میچ فکسنگ کی پیش کش کی اطلاع نہ دینے کے جرم میں تین سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ ایک مرتبہ پھر اپنے کیریئر کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ 26 مئی کو گذشتہ ماہ کی انضباطی کارروائی کے خلاف ان کی اپیل پر فیصلہ سنا دیا جائے گا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دن عمر اکمل کی 30 ویں سالگرہ بھی ہے۔
فی الحال آثار اچھے دکھائی نہیں دے رہے
اگرچہ عمر اکمل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا، تاہم متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ان کی حرکتوں سے عاجز آچکا ہے.
پابندی کے فیصلے میں لکھا گیا تھا: 'عمر اکمل افسوس کا اظہار کرنے اور معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔'
پاکستان کے سابق کپتان اور کرکٹ کے ایک معروف تجزیہ کار رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے باصلاحیت کھلاڑی کو ضائع ہوتے دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔
رمیز راجہ نے اے ایف پی کو بتایا: 'کرکٹ میں اس طرح کے برتاؤ کی معافی نہیں مل سکتی اور شائقین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ داغ دار کھلاڑیوں کی جڑیں دراصل پاکستان کرکٹ اور اس کی شبیہہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔'
عمر اکمل کے ٹیسٹ کیریئر کا 2009 میں نیوزی لینڈ میں پہلی سنچری کے ساتھ شاندار آغاز ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس کی وجہ سے مبصرین انہیں 'مستقبل کا ستارہ' قرار دے رہے تھے۔
لیکن جلد ہی نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں نے ان کے کیریئر پر بد نما دھبے لگا دیے۔ ان کے دو بھائی کامران اور عدنان بھی پاکستان کی طرف سے کھیلے لیکن وہ کبھی تنازعات کا شکار نہیں ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی سطح پر پہلی بار کھیلنے کے چند ماہ بعد عمر اکمل مبینہ طور پر اپنے بھائی کو ڈراپ کیے جانے پر انجری کا بہانہ کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سے دستبردار ہو گئے۔
چھ ماہ کے مقدمے کی سماعت کے بعد ان پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان مصباح الحق بھی عمر کو لگام نہیں دے سکے۔
زمبابوے میں 2011 کے ٹیسٹ میں غیر ذمہ دارانہ شاٹ کے بعد انہوں نے پھر کبھی عمر کو طویل فارمیٹ کے لیے منتخب نہیں کیا۔
اگلے ہی سال سری لنکا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران امپائروں سے ہاتھا پائی کرنے پر ان کو جرمانہ کیا گیا۔
میدان سے باہر بھی تنازعات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ 2014 میں انہیں اپنے آبائی شہر لاہور میں ٹریفک وارڈن کے ساتھ جھگڑا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
رات گئے تک جشن منانے کے لیے وہ بار بار اخباروں کی سرخیاں بنتے رہے اور جرمانے اور سرزنشیں سمیٹتے رہے۔
وہ اس سب کے خود ذمہ دار ہیں
ایک درجن سے زیادہ کپتانوں اور کوچز نے عمر کو ٹریک پر رکھنے کی کوششیں کی لیکن سب بے سود۔
وقار یونس 2010 سے 2016 کے دوران کوچنگ اسسٹنٹ تھے اور انہوں نے عمر اکمل کو کچھ وقت کے لیے قومی ٹیم سے دور رکھنے کی سفارش کی تھی۔
وقار کے بعد جنوبی افریقہ کے کوچ مکی آرتھر کو بھی عمر سے یہی شکایات تھیں۔
2017 میں آرتھر نے فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد چیمپیئنز ٹرافی کے آغاز سے کچھ دن پہلے انہیں گھر بھیج دیا تھا۔
اسی سال کے آخر میں لاہور میں قومی کرکٹ اکیڈمی میں آرتھر کے ساتھ جھگڑے کے بعد ان پر تین ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔
آرتھر جو اب سری لنکا کے ہیڈ کوچ ہیں، نے کہا کہ وہ عمر کے حالیہ مسائل پر حیران نہیں ہیں۔
آرتھر نے اے ایف پی کو وٹس ایپ پیغام میں بتایا: 'مجھے ان لڑکوں کے لیے افسوس نہیں ہوتا جو اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں جیسے عمر نے کی ... انہیں مایوس ہونا چاہیے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں اور انہیں دوسروں پر الزام تراشی کرنے کی بجائے اپنے کیریئر کی (تباہی کی) ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔'
وعدوں کے باوجود عمر نہیں بدلا
عمر نے 2017 میں کہا تھا: 'میں ان اپنے تمام پرستاروں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جن کے جذبات میرے طرز عمل سے مجروح ہوئے ہیں۔'
'میں کرکٹ سے وابستگی کے لیے تیار ہوں۔ میرے اندر اب بھی بہت ساری کرکٹ باقی ہے اور میں بین الاقوامی سطح پر واپسی کرنا چاہتا ہوں۔'
لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب تمام مواقع گنوا چکے ہیں۔