سندھ میں کام کا اجازت نامہ: کیا ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے کچھ نیا کہا؟

سندھ میں قوم پرستی کی جڑیں اتنی پکی ہیں کہ اس کے سہارے کے بغیر پاکستان پیپلز پارٹی جیسی وفاقی جماعت سے لے کر مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی سندھ میں اپنی بقا کا نہیں سوچ سکتی۔

26 اپریل 1998 - اندورن سندھ میں سکولوں پر قبضے کے خلاف مظاہرے۔ (اے ایف پی)

سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر اور رکن سول سوسائٹی ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے ان چند ٹویٹس نے اکثر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ آخر سندھ میں دیگر قومیتوں کے لوگوں کو کام اور تجارت کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کشمیر کی طرح سندھ میں بھی غیر سندھیوں کے لیے جائیداد خریدنے پر پابندی لگانے کی بات کی۔

ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے ان بظاہر غیر معروف خیالات پر اکثر لوگ حیران ہوئے۔ ان کی یہ حیرانی کسی حد تک ٹھیک بھی تھی لیکن جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ ان متعصب نظریات پر ہر گز حیران نہیں۔

سندھ میں قوم پرستی کی جڑیں اتنی پکی ہیں کہ اس کے سہارے کے بغیر پاکستان پیپلز پارٹی جیسی وفاقی جماعت سے لے کر مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی سندھ میں اپنی بقا کا نہیں سوچ سکتی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1972 میں جمعیت علمائے اسلام کی اولین تقسیم کی بنیاد کم و بیش ان مطالبات کی وجہ سے ہوئی تھی جن کا اظہار ڈاکٹر ملاح نے کیا ہے۔

’میں تو اس قرارداد کو پڑھ کر ایسا محسوس کررہا تھا کہ جیسے جی ایم سید بول رہا ہے اور سندھی قومیت ہی جمعیت علمائے اسلام کا واحد مقصد ہے۔‘

ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری مفتی محمود نے 13 مارچ 1972 کو سندھ میں جمعیت کی بنیاد رکھنے والے مولانا محمد اسماعیل کے نام اپنے خط میں کیا تھا۔

 یہ خط دراصل ’سندھ پالیسی‘کے نام سے اس قرارداد کے جواب میں لکھا گیا تھا جو جمعیت علمائے اسلام سندھ کی  ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں 95 فیصد اکثریت سے پاس ہوئی تھی۔ اس قرارداد میں صوبائی خودمختاری، غیر سندھی بیوروکریٹس کو اپنے صوبوں میں بھیجنے، غیر سندھی آبادکاروں کے ناموں کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنے، غیر سندھیوں کو بطور تلافی الاٹ کی جانی والی جائیدادوں کی منسوخی اور خارجہ، دفاع، کرنسی اور بین الاقوامی تجارت کے علاوہ تمام وفاقی شعبہ جات کو صوبوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اجلاس سقوط ڈھاکہ کے بعد منعقد ہوا تھا اور اجلاس میں اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ بنگلہ دیش غلط پالیسیوں کی وجہ سے جدا ہوا تھا اور اب وہ زیادتیاں سندھ، صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخوا ) اور بلوچستان کے ساتھ بھی کی جارہی ہیں۔

ان مطالبات کو مفتی محمود نے مسترد کیا جس کے ساتھ ہی ان کی جماعت میں پہلی تقسیم واقع ہوئی۔

 مولانا اسماعیل نے الگ جماعت بنائی جو نہ چل سکی اور اس طرح ان کے خاندان کا کراچی کے کھڈا مارکیٹ میں قائم کردہ 135 سالہ قدیمی مدرسہ بھی اپنی قوم پرستانہ اور غیر پاپولر فکر کی وجہ سے ترقی نہ کرسکا۔

ادھر مفتی محمود کے انکار کے باوجود ان کی جماعت سندھی قوم پرستی کے اثر سے باہر نہ نکل سکی۔ یہی قوم پرستانہ سوچ آج بھی سندھ میں جمعیت علمائے اسلام کی مقبولیت کی وجہ گردانی جاتی ہے۔  

ڈاکٹر عرفانہ ملاح کی باتیں بہت سوں کو کھٹکی ہوں گی لیکن سندھی سیاسی تاریخ کی نبض پہ جن کا ہاتھ ہے وہ اسے روایتی سندھی قوم پرست سوچ کا تسلسل سمجھتے ہیں۔

سندھ کی سیاسی تاریخ کے واقفان جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کے مطالبات ایک رائج اور تاریخی سوچ کا تسلسل ہے۔

اس سوچ کو قوم پرستوں کی پذیرائی تو مل سکتی ہے مگر شاید کامیابی کبھی نہ مل سکے کیونکہ یہ سوچ انصاف پر مبنی نہیں۔

آج تک کوئی ملک اپنے شہریوں کو کسی خاص حصے میں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے کامیاب نہیں ہوا۔ جب سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے ایسی تنگ نظری کا پرچار کریں تو بس افسوس ہی ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ