خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈٖنگ ریڈنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر عائشہ مفتی نے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے ناقص انتظامات کے الزام کے ساتھ استعفی دے دیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ خیبر پختونخوا کی واحد ڈاکٹر ہیں جو ’انتہائی نگہداشت’ میں سپیشلائزیشن کر چکی ہیں۔ انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو لکھے گئے استعفی میں بتایا ہے کہ ہسپتال کرونا (کورونا) کے مریضوں کو ڈیل کرنے کے لیے تیار نہ تھا اور اگر انہوں کوئی پلان بنایا بھی تھا تو انتہائی نگداشت یونٹ کا عملہ ان سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا ہیں، ’آئی سی یو میں نرسنگ سٹاف کا عملہ ناکافی تھا اور مریضوں کی خدمت کی کوالٹی بہت خراب تھی۔ صفائی کی صورت حال بھی ناقص تھی اور اس حوالے سے ہم نے ہسپتال انتظامیہ کو جب متنبہ کیا تو انتظامیہ نے ایک اور معمولی مسئلے پر جو نرسنگ ڈائریکٹر نے رپورٹ کیا تھا سے متعلق ہم سے وضاحت مانگی گئی۔ ابتدا میں چار کرونا کے مریضوں کے آئی سی یو میں صحت یابی کے علاوہ باقی سارے ریکور نہ سکے اور اس میں نرسنگ کی خراب صورت حال کا بہت کردار ہے۔‘
انہوں نے آئی سی یو کے بارے میں لکھا ہیں کہ ’ہم نے با رہا انتظامیہ کو لکھا ہے کہ پہلے کرونا کے مریضوں کے ہائی ڈیپینڈسی یونٹ میں کچھ علاج کرایا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ پوری آئی سی یو کو صرف چھ کنسلٹنٹس چلا رہے ہیں جبکہ مریضوں کا بوبجھ بہت زیادہ تھا۔
اس ساری صورت حال پر ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال کی ڈاکٹر نے جو وجوہات بیان کی ہیں یہ گمراہ کن ہیں اور انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔
عاصم نے بتایا کہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے ہسپتال انتظامیہ نے مذکورہ ڈاکٹر کے ساتھ کئی اجلاس کئے ہیں اور ان کے رائے کو اہمیت دی اور انہی کے مطابق احکامات جاری کیے گئے۔
عاصم نے بتایا کہ ’انتظامیہ کو فرض ہے کہ وہ مریضوں کے علاج سے مطمئن نا ہو اور مسلسل شکایات موصول ہونے کے بعد بھی عملے سے وجوہات کے بارے میں پوچھے اور اس بارے میں اقدمات اٹھائے۔ حال ہی میں انہی ڈاکٹروں سے کرونا کے مریضوں کی اموات کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس پر انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا۔‘