اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے بعد خیر پختونخوا کے شہرمردان میں پختون قوم پرست رہنما کے نام پر بنائی گئی عبدالولی خان یونیورسٹی بھی سنگین معاشی مسائل کا شکار ہوگئی ہے جہاں ملازمین کو اپریل کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جا سکیں۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے فنانس ڈائریکٹر فیضان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی کو ہائیرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کی طرف سے تا حال نہ ہی گرانٹ ملی ہے اور صوبائی حکومت کی طرف سے صورت حال پر قابو پانے کے لیے رقم بھی فراہم نہیں کی گئی۔
فیضان ملک نے بتایا کہ اس مرتبہ یونیورسٹی میں نئے سمسٹر مارچ کی مہینے سے شروع ہونے تھے کہ اچانک کرونا کی وجہ سے یونیورسٹی کو بند کرنا پڑا جب کہ یونیورسٹی کی بلڈنگ میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ اور آئسولیشن وارڈز قائم کر دیے گئے جس کی وجہ طلبہ کا کیمپس آنا جانا مکمل طور بند ہو گیا۔
دوسری جانب طلبہ سے صرف 10 فیصد فیس ہی جمع ہوسکی کیوں کہ یونیورسٹی کی اپنی انکم جنریشن 930 ملین روپے ہے جس میں ریگولر طلبہ اور پرائیوٹ امتخانات کی فیسیں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا یونیورسٹی اپنے وسائل سے 81 فیصد اخراجات چلا سکتی ہے جب کہ باقی اخراجات ایچ ای سی اور یا صوبائی حکومت کی گرانٹ کی ذریعے پورے کیے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی کے شعبے فنانس نے مارچ کی تنخواہیں اور دیگر یوٹیلٹی بلز تو ادا کر دیے تھے تاہم طلبہ کے ذمے فیسوں کی مد میں 28 کروڑروپے سے زیادہ بقایاجات ہونے پر یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اپریل، مئی اور جون کی تنخواہوں پرکٹ لگا دیا جائے اور اس کے لیے ایک طریقہ کار بنا دیا گیا کہ سکیل 1 سے 11 تک کے ملازمین کو سو فیصد تنخواہیں دی جائیں، سکیل 12 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں پر75فیصد جب کہ گریڈ 17 سے 22 گریڈ کے اہلکاروں کی تنخواہوں پر50 فیصد کٹ لگا کراپریل کی تنخواہ جاری کردیں گے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جونہی یونیورسٹی دوبارہ معاشی لحاظ سے مستحکم ہوجائے گی تو اپنے اہلکاروں کو بقایا تنخواہیں ادا کر دیں گے۔
اس وقت یونیورسٹی میں دس ہزار سے زائد طلبہ تین کیمپسز میں پڑھ رہے ہیں جہاں 1600 ٹیچینگ اور نان ٹیچنگ ملازمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈائریکٹر فنانس فیضان ملک سے جب سوال کیا گیا کہ اب آگے یونیورسٹی معاشی مسائل سے نکلنے کے لیےکیا منصوبہ رکھتی ہے؟
جواب میں انہوں نے کہا کہ 'ہائیرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد یونیورسٹی کو سالانہ 473 ملین روپے دیتا ہے جو کہ 3 کروڑسولہ لاکھ روپے ماہانہ گرانٹ بنتی ہے اور پرائیوٹ بی اے اور ایم اے کے امتخانات کا بھی اشتہار دیا گیا ہے جس کی داخلوں کی فیسوں کی مد میں بھی اچھی خاصی رقم جمع ہو جائے گی جب کہ صوبائی حکومت کو درخواست دی گئی ہے کہ یونیورسٹی کو تنخواہوں کی مد میں 30 کروڑ روپے کی گرانٹ دی جائے لیکن صوبائی حکومت نے گرانٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر یونیورسٹی صوبائی حکومت سے قرض کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔'
فیضان ملک نے کہا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹی نے اب لرننگ میجمنٹ سسٹم کے تحت آن لائن کلاسز شروع کرنے کی منظوری دی ہے اور یکم جون سے آن لائن کلاسز شروع کریں گے اور طلبہ سے آن لائن امتحان بھی لیا جائے گا جس سے فیسوں کی مد میں آمدنی کا نیا ذریعہ کھل جائے گا۔
ڈائریکٹر فنانس نے بتایا کہ یونیورسٹی کی ماہانہ تنخواہیں دس کروڑ روپے ہیں اور اگر یونیورسٹی کرونا وائرس لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بند نہ ہوتی اورطلبہ سے فیسیں بروقت جمع کر لی جاتیں تو یونیورسٹی اس سہ ماہی مالی بحران سے بچ جاتی اور اگر اس وقت صوبائی حکومت کی جانب سے 30 کروڑروپے کا قرضہ مل جائے تو بھی یونیورسٹی کا معاشی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
فیضان ملک نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخورشید کو چھ لاکھ روپے اضافی الاﺅنس دے رہی تھی۔
یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر عتیق الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے میں اس وقت عبدالولی خان یونیورسٹی مردان سمیت اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور،گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان اور پشاور یونیورسٹی کو بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ کرونا لاک ڈاﺅن نے یونیورسٹی کو معاشی بدحالی سے دوچار کردیا ہے اور کلاسزز شروع ہوتے ہی معاشی مسئلہ حل ہوجائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی صوبے میں یکم جون سے آن لائن کلاسز کا آغاز کرنے والی پہلی یونیورسٹی ہے۔
ترجمان نے مطالبہ کہ جس طرح صوبائی حکومت نے گومل یونیورسٹی کو مالی امداد فراہم کرکے اس کے معاشی مسائل حل کردیے ہیں اس طرح عبدالولی خان یونیورسٹی کو بھی مالی امداد فراہم کی جائے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی سیاسی اثرو رسوخ اور اقربا پروری پر ملازمتیں دینے کی وجہ سے میڈیا میں خبروں کی زینت بنتی رہی ہے جب کہ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹراحسان علی بھی اس وقت نیب میں اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی بدعنوانیوں اور غیرقانونی ملازمتیں دینے کی کیسز میں پیشی بھگت رہے ہیں۔
عبدالولی خان یونیورسٹی میں اپریل2017میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے طالب علم مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے نام نہ بتانے کے شرط پرانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے عبدالولی خان یونیورسٹی اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہائیرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد تمام یونیورسٹیوں کو گرانٹ دیتا ہے لیکن انتظامیہ نے صحیح طریقے سے اپنا بجٹ اور اخراجات تفصیل سے ایچ ای سی کو جمع نہ کرا سکی جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹ جاری نہیں ہوسکی۔
اسسٹنٹ پروفیسر نے مزید کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ مسلسل غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے اور اس وقت بھی ایچ ای سی کے رولز کے خلاف اپنی مرضی اور اقربا پروری کے تحت ایڈمنسٹریشن عہدوں پر فیکلٹی کے لیکچرر،اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسرز تعینات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاشی بدحالی کے باوجود یونیورسٹی کے فنانس ڈائرکٹرکو اپنے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ منیجمنٹ سائنس ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرر، رجسٹرارکی عہدے پر لا ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر، پروسٹ کے عہدے پر فزیکل اینڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین اور اس طرح ڈائریکٹرایکڈمک اور دیگر پوسٹوں پر بھی فیکلٹی کے سٹاف کو اپنی مرضی کے مطابق لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں گورنرخیبرپختونخوا کی جانب سے بھی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ انتظامی عہدوں سے ٹیچنگ سٹاف کو ہٹایا جائے لیکن ابھی تک انتطامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہی جس کی وجہ سے یونیورسٹی آئے روز مشکلات سے گزر رہی ہے۔