برطانیہ میں یونیورسٹی کے ایک نگران سرکاری ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ مضمون لکھنے والی کمپنیاں طلبہ کو ان کی نقل افشا کرنے کی دھمکی دے کر رقم اینٹھ رہی ہیں۔
عالی تعلیمی اداروں میں معیار پر نظر رکھنے والی کوالٹی ایشورنس ایجنسی (کیو اے اے) نے کہا ہے کہ جو طلبہ ’ایسے یا مضمون ملز‘ استعمال کرتے ہیں وہ اپنے کیرئر اور ساکھ کو ’خطرے‘ میں ڈال رہے ہیں۔
کیو اے اے کے چیف ایگزیکٹو ڈگلس بلیک سٹوک کے مطابق بعض ایسے (داخلے کے لیے مضمون لکھوانے والی) کمپنیاں طلبہ سے مزید رقم ادا کرنے کو کہہ رہی ہیں اور دھمکی دے رہی ہیں کہ ورنہ وہ ان کے ادارے کو اس غیرقانونی کام کی اطلاع دے دیں گی۔
یہ تنبہ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب وزیر تعلیم ڈیمین ہنڈس نے ’نقل کے خاتمے‘ کے سلسلے میں کئی اقدامات پر عمل درآمد کا آغاز کیا ہے جن میں یونیورسٹیوں میں مضامین لکھنے کی خدمات کو غیرقانون بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ڈیمین ہنڈس نے کہا کہ آن لائن کمپنیاں جیسے کہ پے پال ایسے ملز کی رقوم کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ کے تحت ترسیل نہ کریں جو نوجوانوں سے غلط فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ڈیمین یونیوسٹیوں سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ نقل کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں اور ’آنر کوڈز‘ متعارف کروائیں جس کے تحت طلبہ ایسائمنٹس کے لیے مضمون لکھنے والی کمپنیوں کی خدمات نہ لیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طلبہ ان لوگوں کی اطلاع دیں جو نقل کر رہے ہیں۔ ’کوئی بھی اپنے دوستوں کی چغلی کرنے کا آئڈیا پسند نہیں کرتا لیکن ایک ایسا کلچر ہونا چاہیے جس میں نقل کرنے کو اچھا نہ مانا جائے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ محض ہانر کوڈز سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ نقل مخالف سافٹ وئر کا استعمال اور طلبہ کے امتحان کے لیے مضامین پر کم سے کم انحصار کرنے کا طریقہ بھی شامل ہے۔
حکومت کا یہ قدم ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یو ٹیوب نے تعلیمی نقل سیکھنے کی ہزاروں ویڈیوز ہٹائیں ہیں اور گوگل نے مضامین لکھوانے والی کمپنیوں کے سینکڑوں اشتہار مسترد کیے ہیں۔ ڈیمین کا کہنا تھا: ’یہ ان کمپنیوں کا اس کاروبار سے منافع کمانے کا انتہائی غیراخلاقی عمل ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنٹ پر بھی مضامین نویسی کی خدمات کی بھی بلیک مارکیٹ ابھری ہے جس کی وجہ سے نقل کے امکانات ’ممکنہ طور پر‘ بڑھے ہیں۔
سوانسی یونیورسٹی کے ایک حالیہ جائزے نے 2014 اور 2018 کے درمیان طلبہ کی جانب سے دنیا بھر میں اپنا کام کسی اور سے کروانے کے لیے ادائیگی کے اعتراف میں تقریباً 16 فیصد اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ 2016 میں کیو اے اے نے برطانیہ میں ہر سال تقریباً 17 ہزار تعلیمی جرائم کے واقعات نوٹ کیے ہیں۔ لیکن عام خیال یہ ہے کہ مضامین نویسی کی خدمات حاصل کرنے والوں کی تعداد اس سے کافی زیادہ ہے۔
ڈگلس بلیک سٹوک کہتے ہیں: ’جو کمپنیاں طلبہ کو نقل سے آزاد مضامین خریدنے پر مجبور کرتی ہیں وہ ہماری اعلیٰ تعلیم کی سالمیت کو خطرہ ہیں۔‘
آفس فار سٹوڈنٹس کی چیف ایگزیکٹو نیکولا ڈینڈرج کہتی ہیں: ’مضامین نویسی کی صعنت نقل کو باقاعدہ بنانے کی ایک چالاک کوشش ہے جس کی یونیوسٹیوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کی سرگرمیاں کبھی بھی منصفانہ قرار نہیں دی جا سکتیں اور جو انہیں استعمال کرتے ہیں ان کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ ان بڑی تعداد میں طلبہ کے ساتھ بھی ناانصافی ہے جو اپنے بل بوتے پر مقابلہ کرتے ہیں۔‘
نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس (این یو ایس) کے امتاتے ڈوکو نے ان کمپنیوں کو استحصالی قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ’این یو ایس اس کے متبادل کوئی بہترین نظام لانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
گذشتہ برس ستمبر میں یونیورسٹی رہنماؤں نے ان کپمنیوں کو غیرقانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن نے ان کمپنیوں کو غیرقانونی قرار دینے کے بارے میں قانون سازی کا خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔
یونیورسٹیز یو کے کے ڈائریکٹر کرس ہیل کہتے ہیں کہ تمام یونیورسٹیوں کے قواعد ہیں جس کے مطابق طلبہ کو کسی اور کے کام کو اپنا ظاہر کرنے پر سخت سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’انتہائی سزا کے طور پر ان طلبہ کو نکالا بھی جاسکتا ہے اور یونیورسٹیاں بھی ان معملات سے نمٹنے میں مہارت حاصل کر رہی ہیں۔‘
پے پال کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ وہ اس معملے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔