کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے بعد سندھ میں تعلیمی ادارے پچھلے تین ماہ سے بند ہونے کے بعد 11 سالہ شبیر نے اپنے دوستوں کے ساتھ کٹی پتنگ کے پیچھے تیز بھاگنا سیکھا تھا۔ لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس کی دوڑ ایک گرتے ہوئے جہاز کے پیچھے بھی ہو سکتی ہے۔
’کرونا کی چھٹیوں کے بعد سے ہم سب دوست شام میں ٹیوشن پڑھنے اور قرآن پڑھنے جاتے ہیں مگر دن میں ماڈل کالونی کے سنسان سڑک پر پتنگ اڑاتے ہیں۔ کل بھی پتنگ اُڑا رہے تھے۔ یہاں سے جہاز روز گزرتے ہیں مگر کل وہ وہ جہاز عجیب طرح سے اڑ رہا تھا۔ میں ایک پتنگ باز ہوں اگر کنی خرابی ہوجائے تو پتنگ ٹیڑھا اڑتا ہے بلکل وہ جہاز بھی اس طرح اڑ رہا تھا۔ ایک پر نیچے ایک اوپر تھا، ساتھ میں ڈگمگا رہا تھا، میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ اب گرا کہ تب گرا۔۔‘
یہ الفاظ ہیں شبیر کے جنہوں نے اپنے دوست کے ہمراہ اڑتی پتنگوں کو وہیں چھوڑا اور گرتے جہاز کے پیچھے بھاگنے لگے۔
’ہم سب دوست بھاگے یہ دیکھنے کے لیے کہ ڈگماتے ہوئے جہازکا کیا ہوتا ہے پھر ہم نے دیکھا کہ یہ جہاز ہماری کالونی کے اوپر گرا۔ ایک بڑا دھماکا ہوا اور ساتھ میں آگ اور دھویں کا ایک بگولہ اُٹھا اور ہم سب دوست رُک گئے۔ سب دوستوں نے کہا کہ اندر جانا ہمارے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ تو ہم اپنے گھروں کو واپس دوڑے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شبیر نے بتایا کہ جہاز گرنے کے تھوڑی دیر بعد پولیس، رینجرز اور فوج کے اہلکار بڑی تعداد میں آگئے اور لوگوں کو وہاں جانے سے روک رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پولیس، رینجرز اور فوجی ہمارے تحفظ کے لیے ہمیں وہاں جانے سے روک رہے تاکہ ہم محفوظ رہ سکیں اور یہ سکیورٹی والے ہمیشہ ہمارے تحفظ کے لیے ہمیں روکتے ہیں۔ ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔‘
حادثے کے بعد کراچی کے مخلتف علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ جن کے قریبی رشتے دار ماڈل کالونی میں مقیم تھے ان کے خیریت معلوم کرنے وہاں پہنچے۔ اس سے امدادی کارکنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پریشان لواحقین اپنوں کی خیریت معلوم کرنے یہاں وہاں بھاگ رہے تھے۔
محمد عثمان جو کراچی پورٹ پر دہاڑی پر کام کرتے ہیں ان کے چچا ماڈل کالونی میں مقیم تھے۔ وہ اپنے چچا کی خیریت معلوم کرنے وہاں پہنچے۔ انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ کہ جیسے ہی انہیں ٹی وی پر حادثے کی اطلاؑ ملی تو وہ وہاں پہنچے لیکن سکیورٹی اہلکار انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے جیسے اطلاع ملی میں یہاں پہنچا مگر مجھے اندر جانے کے اجازت نہیں دی جارہی اور چچا کا فون بھی نہیں لگ رہا اور کوئی بتانے کے لیے بھی تیار نہیں کہ وہاں کیا ہوا ہے۔‘
فوجی ہیلی کاپٹر پر اس مقام پر مسلسل گشت کر رہا تھا۔ جائے وقوع پر رات گئے تک امدادی کام جاری رہا۔