ہماری کتابیں کس حد تک پڑھنے کے لیے ہیں اور کس حد تک دکھاوے کے لیے ہیں؟ یہ سوال ہے سعدیہ گردیزی کے آج کے وی لاگ میں۔
سعدیہ کہتی ہیں کہ ٹوئٹر پر بک کیس کریڈیبیلیٹی کے نام سے ایک طنزیہ اکاؤنٹ ہے جو کہ ماہرین اور دیگر شخصیات کے انٹرویوز میں بیک گراؤنڈ میں پڑی کتابوں کا جائزہ لیتا ہے اور ان کی دنشوریت پر شک کرتا ہے کہ کیا انہوں نے واقعی اتنی کتابیں پڑھیں اور کیا کتابوں کے سامنے بیٹھنے سے لوگ آپ کی بات پر زیادہ یقین کریں گے؟
اس سے سعدیہ کو اینٹی انٹلیکچوئلئزم یا مخالفتِ عقل پرستی کا خیال آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک ایسی سوچ ہے جو ذہانت پر شک کرتی ہے۔ ایک طرف یہ طبقاتی فرق پر تنقید ہے کہ وہی لوگ کتابیں پڑھ سکتے ہیں جو امیر ہیں تو جب یہ اشتیاق ایک عام انسان کی پہنچ سے دور ہے تو پھر اسے کامیابی ہی نہ سمجھا جائے؟
دوسری طرف یہ سوچ خطرنک ہے اس لیے کہ یہ آپ کو رائے دیتی ہے کہ جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں وہ اپنا وقت اور پیسا ضائع کرتے ہیں اور متکبر ہیں۔
اینٹی انٹلیکچوئلئزم کا استعمال آمرانہ حکومتوں نے کئی بار کیا یے۔ سعدیہ کا کہنا ہے کہ آج کل اس سوچ کا سب سے زیادہ استعمال امریکہ کی سیاسی صورت حال کو بیان کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔
دیکھیے ان کا وی لوگ۔