ہند چین تنازعے کی 70 سالہ کہانی

دنیا کے دو بڑی آبادی والے دو ملکوں کے درمیان تنازعات کی داستان کئی عشروں پر محیط ہے۔

(روئٹرز)

چین اور انڈیا کے درمیان 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جہاں کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ چین 90 ہزار مربع کلومیٹر پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے ا س کے 38 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

دنیا کی کثیر آبادی میں پہلے اور دوسرے نمبر پر براجمان ان دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 90 ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے جس میں چین کا پلڑا بھاری ہے جو بھارت کو سالانہ تقریباً 74 ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ یکم اپریل 2020 کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی 70 ویں سالگرہ بھی منائی گئی۔

چین بھارت حالیہ کشیدگی کے تناظر میں انڈپینڈنٹ اردو نے ایک ٹائم لائن مرتب کی ہے تاکہ قارئین دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ 70 سال کے اہم واقعات کو جان سکیں جس سے انہیں حالیہ تنازعے کی تاریخ کے بارے میں معلومات ہو سکیں گی۔

دسمبر 1949: غیر کمیونسٹ ممالک میں انڈیا، برما کے بعد دوسرا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔

اکتوبر 1950: چینی افواج کی تبت کی جانب پیش قدمی۔

مئی 1951: چین نے تبت کے گورنر کو گرفتار کر لیا۔

مئی 1954: چین اور بھارت نے باہمی معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد ایک دوسرے کی علاقائی خودمختاری کا احترام تھا۔

جون 1954: چین کے وزیراعظم چو این لائی نے بھارت کا پہلا دورہ کیا۔

مارچ 1955: بھارت نے یہ کہہ کر چین کے سرکاری نقشے پر اعتراض کر دیا کہ اس میں بھارتی علاقے چین میں دکھائے گئے ہیں۔

دسمبر 1956: چینی شہریوں کو بھارت نے لداخ سے نکال دیا۔

ستمبر 1957: نائب بھارتی صدر رادھا کرشنن نے چین کا دورہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوری 1959: چین کے وزیراعظم چو این لائی نے لداخ اور ارونا چل پردیش کے 40 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر ملکیت کا دعویٰ کیا۔

اپریل 1959: دلائی لامہ نے تبت کے علاقے لاہسا سے بھاگ کر بھارت میں سیاسی پناہ لے لی جس پر چین نے شدید احتجاج کیا۔

ستمبر 1959: چین نے کہا کہ وہ برٹش انڈیا دور کی سرحدیں نہیں مانتا کیوں کہ وہ برطانیہ اور انڈیا کے درمیان 1842 کے اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جس میں سرحدوں کی حد بندی ہوئی تھی۔

اپریل 1960: چواین لائی اور نہرو کے درمیان نئی دہلی میں سرحدی تنازع حل کرنے پر مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔

فروری 1961: چین نے سکم کے علاقے میں 12 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا۔

اکتوبر 1961: چین اور بھارت کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنےآ گئیں اور گشت شروع کر دیا۔

دسمبر 1961: بھارت نے لداخ میں سرحدی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔

20 اکتوبر 1962: دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ پیپلز لبریشن آرمی نے دو اطراف سے حملہ کر کے ارونا چل پردیش کے اہم علاقے توانگ پر قبضہ کر لیا۔ ایک ماہ بعد جنگ بندی تو ہو گئی مگر سرحدی تنازع برقرار رہا،بھارت نے چین پر 33 ہزار کلومیٹر علاقہ ہتھیانے کا الزام لگایا جبکہ چین نے دعوی ٰ کیا کہ ارونا چل پردیش کا تمام علاقہ اس کی ملکیت ہے۔

اگست 1965: چین نے بھارتی افواج کی سکم میں موجودگی پر احتجاج کیا۔

نومبر 1965: چین کی فوجیں بھی سکم میں گھس آئیں۔

مئی 1974: چین نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر شدید احتجاج کیا۔

اپریل 1975: چین نے سکم کو انڈیا میں شامل کرنے پر احتجاج کیا۔

اپریل 1976: دونوں ممالک کے درمیان 15 سالوں سے معطل سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔

فروری 1979: بھارتی وزیرخارجہ اٹل بہاری واجپائی نے چین کا دورہ کیا۔

دسمبر 1986: چین نے ارونا چل پردیش کو انڈین یونین میں شامل کرنے پر شدید احتجاج کیا۔

دسمبر 1988: بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کیا جس میں تنازعات کے حل اور باہمی تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔

ستمبر 1993: بھارتی وزیراعظم نرسیما راؤ نے چین کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کی افواج کا جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانے کا معاہدہ کیا۔

اگست 1995: دونوں ممالک مشرقی سرحد پر سمدورانگ چو وادی سے اپنی اپنی افواج کے انخلا پر رضامند ہو گئے۔

نومبر 1996: چینی صدر جیانگ زیمن نے بھارت کے ساتھ اعتماد سازی میں اضافے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

مئی 1998: چین نے بھارت کی جانب سے دوسری بار ایٹمی دھماکے کرنے پر احتجاج کیا۔

جون 1999: چین نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین پر دلائی لامہ کی علیحدگی کی سرگرمیوں کو روکے۔

جنوری 2000: چین نے اکسائی چین کے علاقے میں سڑکیں بنانا شروع کر دیں۔ انڈیا نے الزام لگایا کہ چین اس کے علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر گھس آیا ہے۔

جنوری 2000: بھارت نے دلائی لامہ کے بعد کرمپا کو بھی سیاسی پناہ دے دی جس پر چین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

جولائی 2006: چین اور بھارت نے ناتھو لال پاس کھولنے کا اعلان کیا جو 1962 کی جنگ سے بند تھا۔

مئی 2007: چین نے ارونا چل پردیش کے وزیراعلیٰ کو یہ کہہ کر ویزا نہیں دیا کہ ارونا چل پردیش چین کا حصہ ہے اس لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔

جنوری 2009: بھارتی وزیراعظم نے باہمی تجارت کا حجم 50 ارب ڈالر بڑھنے پر چین کا دورہ کیا۔

اکتوبر 2009: چین نے من موہن سنگھ کے دورہ ارونا چل پردیش پر احتجاج کیا۔

اگست 2010: چین نے بھارتی جنرل بی ایس جسوال کو یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے کمانڈر تھے۔

نومبر 2010: چین نے جموں و کشمیر کے شہریوں کو پاسپورٹ کی بجائے کاغذ پر ویزوں کا اجرا شروع کر دیا۔

اپریل 2013: چینی افواج لداخ میں 13 کلومیٹر اندر تک گھس آئیں اور کہا کہ یہ اس کے صوبے زی جیانگ کا حصہ ہے مگر پھر پیچھے ہٹ گئیں۔

جولائی 2014: بھارتی وزیراعظم مودی اورچینی صدر زی پنگ کے درمیان پہلی بار برکس کے اجلاس منعقدہ برازیل میں ملاقات ہوئی۔

ستمبر 2014: چینی صدر زی پنگ اور مودی کے درمیان احمد آباد میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں چین نے بھارت میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔

مارچ 2015: دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا 18 واں دور ہوا۔

مئی 2017: بھارت نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین کی دعوت رد کر دی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

جون 2017: بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت مل گئی۔

جولائی 2017: دوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

اپریل 2018: مودی اور زی پنگ کے درمیان ملاقات ہوئی تاکہ دوکلام کے واقعے کے بعد تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے۔

اکتوبر 2019 چین نے جموں و کشمیر پر آرٹیکل 370 کے اطلاق پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

5 مئی 2020: تبت میں پنگانگ جھیل کے کناروں پر دونوں افواج میں ایک دوسرے سے ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد گالوان، سکم اور دیمچوک کے مقامات پر بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جہاں بھارت سڑکیں بچھا رہا ہے چین نے یہاں اپنے 5000 فوجی تعینات کر دیئے ہیں اور لداخ میں متنازع علاقے میں فوجی سازو سامان کی نقل و حرکت شروع کر دی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ