یہ سطریں لکھتے وقت پاکستان میں کرونا (کورونا) مریضوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 64,028 تک پہنچ چکی تھی جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1317 تھی۔ صرف 24 گھنٹوں میں 2,636 نئے مریضوں کا اضافہ اور 57 ہلاکتیں بتائی گئی ہیں۔
پچھلے کئی دنوں سے پاکستان میں ہر روز ہلاکتوں کی تعداد اوسطاً 30 کے قریب تھی جو اب تقریباً دوگنی ہو چکی ہے۔ صرف پنجاب سے پچھلے 24 گھنٹوں میں مریضوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہو چکی تھی جبکہ چند دن پہلے اتنی تعداد ملک بھر میں ہوتی تھی۔
ان سب حقائق کے باوجود سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ کرونا ٹیسٹنگ کی کم ہوتی ہوئی تعداد ہے۔ عید کی چھٹیوں میں اس ٹیسٹنگ میں 100 فیصد کمی آئی تھی اور آٹھ سے نو ہزار لوگوں کے ٹیسٹ پورے ملک میں ہو رہے تھے۔ اب بھی جبکہ پچھلے ایک ہفتے میں کم سے کم ٹیسٹنگ جو آدھے سے بھی کم تھی، مریضوں کی تعداد میں 14 ہزار سے زائد نئے کیسز کا اضافہ ہو چکا ہے۔
تاہم یہ اعداد و شمار اس ٹیسٹنگ پر مبنی ہیں جو تقریباً منجمد ہو چکی ہے۔ اگر ملک میں ٹیسٹنگ ہو ہی نہیں رہی تو آپ کیسے کہیں گے کہ آج ملک میں کرونا کے کتنے مریض ہیں اور کتنے لوگ جو آج اللہ کو پیارے ہوئے ہیں وہ کرونا کی وجہ سے موت کی وادی میں گئے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے جمعرات تک 520,017 لوگوں کی کرونا ٹیسٹنگ کی تھی۔ یہ تعداد 21 کروڑ کی آبادی والے ملک کا صرف %0.24 بنتی ہے، جو کہ ملکی آبادی کے ایک فیصد کا بھی ایک چوتھائی ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے ٹیسٹنگ عملاً بند کی ہوئی ہے۔ جب ہمیں یہی نہیں معلوم کہ کتنے لوگ کرونا سے متاثر ہیں تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ کتنے لوگ کرونا کے ہاتھوں چل بسے ہیں۔ یہاں پر اعداد و شمار اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔
دوسری طرف ہم نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے راستے میں تمام رکاوٹیں ایک ایک کر کے ہٹا دی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ کرونا وائرس کوئی سنگین مسئلہ نہیں اور ہم نے گھبرانا نہیں ہے۔ اب کرونا کے افزائش اور فروغ میں حائل تمام بند توڑ دیے گئے ہیں۔
اب ریلوے کے ساتھ ساتھ، پنجاب میں ریستورانوں اور کھابوں کے کھلنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ شہروں کے اندر اور شہروں کے درمیان ٹرانسپورٹ پہلے ہی کھولی جا چکی ہے۔ کل رات سے ملک سے باہر جانے کے لیے ماسوائے بلوچستان کے دو ہوائی اڈوں کے، ملکی اور غیر ملکی پروازوں کو کھول دیا گیا ہے۔
نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
24 گھنٹوں کے اعداد و شمار ایک بار پھر۔
ملک بھر میں مریضوں کا سب سے بڑا اضافہ 2,636۔
ملک بھر میں ہلاکتوں کا سب سے بڑا اضافہ 57۔
پنجاب کا ہلاکتوں کا سب سے بڑا اضافہ 29۔
آہستہ آہستہ وہ صورت حال سامنے آ رہی ہے جس سے ڈاکٹر اور ماہرینِ صحت خبردار کر رہے تھے۔ وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ اگر کرونا کی تیز افزائش کو لاک ڈاؤن اور حفاظتی اقدامات جن میں لازمی ماسک پہننا، جسمانی دوری اور صابن سے ہاتھ دھونے اور ہینڈ سینیٹائزر لگانا بھی شامل ہے، اختیار نہ کیا گیا تو ہسپتالوں میں نہ جگہ رہے گی اور نہ ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف۔
اب ملک بھر سے یہی خبریں آ رہی ہیں۔ پشاور سے کراچی تک یہی حالت ہے۔ کراچی میں دو دن پہلے ایک مریض کی دیکھ بھال ایمبولینس میں کی گئی کیونکہ ہسپتال میں بستر دستیاب نہ تھا۔ پشاور میں مریض کو واپس کیا گیا کیونکہ ہسپتال میں جگہ میسر نہ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بدقسمت ملک میں سانحات کا ایک نہ ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔ جمعة الوداع کے دن پی آئی اے کے دل خراش واقعے کے صدمے سے لوگ ابھی تک باہر نہیں نکل سکے، جس کے نتیجے میں 100 کے قریب قیمتی جانیں، عید کے موقعے پر اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گئیں۔ ایسے موقعے پر لوگوں کو پُرسے کی ضرورت تھی لیکن ہمارے وزیر اعظم کی نتھیا گلی میں عید منانے کی اور ایک بڑے ہٹو بچو قافلے کی وڈیو گردش کرتی رہی۔
ابھی یہ باتیں چل ہی رہیں تھیں کہ ٹڈی دل کی پورے ملک پر یلغار کی خبریں ہر طرف سے آنے لگی ہیں۔ جنوبی وزیرستان سے جنوبی پنجاب تک اور بلوچستان سے سندھ تک، ملک کا کوئی علاقہ ٹڈی دل سے محفوظ نہیں۔ کرونا وبا نے جو معیشت کا حشر کیا ہے اس میں واحد امید زراعت کا شعبہ تھا (جو ابھی تک مثبت زون میں ہے، جبکہ صنعت اور خدمات منفی زون میں داخل ہو چکے ہیں) لیکن اگر ہماری ایٹمی طاقت، ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو اس کا مطلب صاف ہے کہ جو لوگ کرونا کے حملے سے بچ جائیں گے وہ ٹڈی دل کی طرف سے زراعت کی تباہی کے نتیجے میں بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گے۔
حکومت اور اس کے مختلف اداروں اور ایجنسیوں کی طرف سے ہر روز سب اچھا کی خبر مل رہی ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اتنے ہزار لیٹر چین کی طرف سے پاکستان کو امداد کی صورت میں دیے گئے ہیں لیکن ابھی تک ٹڈی دل پر کنٹرول کی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ابھی جولائی کے مہینے میں مشرقی افریقہ سے ٹڈی دل کے ایک اور بڑے ریلے کی آمد کی خبریں ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جب کرونا کا نقطہ عروج بھی متوقع ہے۔
ان تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت اور حزب اختلاف مل کر کیا کرسکتی ہے، اس کی بھی کوئی خبر نہیں۔ پارلیمان کا پچھلا اجلاس کرونا وبا کے سلسلے میں کسی مشترکہ لائحہ عمل کی بجائے الزامات اور جوابی الزامات کی نذر ہو گیا۔ وزیر اعظم کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ پوری پارلیمان کے رہنما بنتے اور سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ اسی طرح قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی تشریف نہ لائے۔
عید کے بعد اب وہ پکڑ دھکڑ جس کی نوید شیخ رشید نے سنائی تھی اس کا انتظار ہے۔ کل احتساب عدالت نے نواز شریف کے توشہ خانہ کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور آصف زرداری کو اگلی پیشی پر لازمی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں احکامات پر عمل درآمد کے امکانات موجودہ حالات میں صفر ہیں۔
باقی حزب اختلاف والوں کے خلاف کیا ہوتا ہے ابھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن تخت لاہور کے خلاف بھی ہِل جُل کی خبریں آ رہی ہیں جن میں جہانگیر ترین، گجرات کے چوہدریوں اور شہباز شریف شریک بتائے جاتے ہیں۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسے زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہیے کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس کا مقصد ان سب کے آڑے موجودہ مشکلات میں نرمی حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔
جب تک مقتدر حلقوں کی طرف سے سبز بتی نہیں دکھائی جاتی، کوئی بڑی کارروائی ممکن نہیں۔ لیکن جب یہ معاملہ شروع ہوا تو پھر صرف فیض آباد کے جنوب تک نہیں بلکہ شمال بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ جب تبدیلی آئے گی تو پوری بساط لپیٹی جائے گی۔
اس وقت جب تمام نظریں آنے والے بجٹ پر ہیں، مشیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا، لوگ حیران ہیں کہ بجٹ کے خسارے کو کیسے دور کیا جائے گا۔ کل ہی خبر آئی کہ حکومت اب ڈیڑھ ارب ڈالرز کے نئے غیر ملکی یورو بانڈز بیچنے جا رہی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا ہاٹ منی حاصل کرنے والی پالیسی کو اب مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے یا نہیں، لیکن بغیر بجٹ کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔
اسی ہفتے اسلام آباد کے بڑے گھروں پر ٹیکس لگانے کی خبریں تھیں لیکن کل ہی نیپرا کی طرف سے فی یونٹ ڈیڑھ روپیہ مزید بجلی مہنگی کرنی کی سفارش سامنے آئی ہے جس سے حکومت 162ارب روپے اکٹھا کر سکے گی۔ معیشت کی اصل صورت حال کا تو اگلے مہینے معاشی سروے سے پتہ چلے گا لیکن عبوری اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی کی ویلیو جو سال 2017-2018 میں 313 ارب ڈالرز تھی، پچھلے سال کم ہو کر 280 ارب ڈالرز اور اس سال مزید سکڑ کر 265 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح لوگوں کی فی کس آمدنی میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد تقریباً 25 فیصد کمی آئی ہے۔ اس سال محاصلات میں مزید 30 فیصد کمی جبکہ مالی خسارہ دہرے ہندسے (ڈبل ڈجٹ) میں ہو گا۔ زراعت، صنعت اور خدمات، تینوں شعبے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے جبکہ صنعت اور خدمات تو منفی زون میں چلے گئےہیں۔
ابھی قومی مالیاتی کمیشن کا تنازع بھی حل نہیں ہوا اور یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے انہی صفحات میں آپ کو خبردار کیا تھا، اب عدالتوں میں پہنچ چکا ہے۔ کرونا، ٹڈی دل، معاشی بدحالی اور اوپر سے سیاسی عدم استحکام وہ تہرے مسائل ہیں جو اس ملک کو درپیش ہیں لیکن سرکار کی پوری توجہ میڈیا سٹرٹیجی اجلاسوں اور پکڑ دھکڑ تک محدود ہے۔ ایسے میں جوں کا توں اور ڈنگ ٹپاؤ چلنے والا نہیں ہے۔