بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں گذشتہ دنوں ہجوم کے تشدد کے نتیجے میں نوجوان کی ہلاکت اور دو کے شدید زخمی ہونے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی بلوچستان عبدالرزاق چیمہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ واقعے میں ملوث پانچ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مزید تفتیش کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد جب پولیس وہاں پہنچی تو پتہ لگا کہ اس وقت 400 سے 500 تک لوگ مشتعل تھے۔
واضح رہے کہ جمعرات 29 مئی کو کوئٹہ کے علاقے بروری کے ہزارہ ٹاؤن میں تین نوجوانوں پر مشتعل ہجوم نے تشدد کیا تھا، جس کے نتیجے میں بلال نورزئی نامی ایک نوجوان ہلاک جبکہ دو زخمی ہوگئے تھے۔
ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ واقعے کے دونوں زخمیوں کو علاج کے لیے کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔
نورزئی قبیلے کے سربراہ پروفیسر حافظ عبید اللہ نے بتایا کہ مقتول بلال کی کوئٹہ شہر میں موبائل کی دکان تھی۔ انہوں نے جواد نامی ایک شخص کو ایک گاڑی فروخت کی تھی اور واقعے کے روز وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ گاڑی کے پیسے لینے گئے تھے۔
حافظ عبید اللہ کے مطابق: 'وہاں پر بجائے پیسے دینے کے ان لوگوں نے بلال اور ان کے ساتھیوں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے علاقے کی خواتین کی ویڈیوز بنارہے تھے، جس کے بعد انہوں نے تشدد شروع کیا اور پھر باقی لوگ بھی اس تشدد میں شامل ہوگئے اور بلال کو بے دردی سے مار دیا گیا۔'
حافظ عبید اللہ نے بتایا کہ ہم حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں اور امید ہے کہ جے آئی ٹی ملوث افراد کو سامنے لاکر قرار واقعی سزا دلوائی گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرتشدد واقعے میں بچ جانے والے نیاز محمد نے سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ وہ تین افراد ہزارہ ٹاؤن میں گاڑی کے پیسے لینے گئے تھے۔
نیاز محمد کے مطابق: 'اس دوران ہم حمام میں بیٹھے تھے اور جس شخص کو ہم نے گاڑی بیچی تھی ان سے کچھ جھگڑا ہو اور انہوں نے ہمارے موبائل چھین لیے اور کچھ دیر کے بعد ہجوم اندر آگیا اور تشدد شروع ہوگیا، جس کے بعد پھر مجھے پتہ نہیں چلا۔'
واقعے کے بعد ہفتے کے روز ہلاک نوجوان بلال کے لواحقین نے لاش کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب احتجاج کیا، جسے صوبائی وزرا کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا۔
دوسری جانب حکومت بلوچستان نے 31 مئی کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ اسد ناصر کررہے ہیں، جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اسپیشل برانچ اور انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ بھی معاونت کرے گا۔
ادھر صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے بھی واقعے کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا کہ ظلم کرنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
ضیاء لانگو نے بتایا کہ ہمیں قومیتوں اور فرقوں میں تقسیم کرنا دشمنوں کی چال ہے جبکہ علاقہ ایس ایچ او کو غفلت برتنے پر معطل کردیا گیا ہے۔
قومی جرگہ بلانے کا مطالبہ
دوسری جانب معروف سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو قومی جرگہ بلانے کی دعوت دی ہے۔
جلیلہ حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'جب ہم نے اس واقعے کے حوالے سے پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لین دین کا تنازع تھا جس میں بعد میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوگئے اور پھر تشدد شروع ہوگیا۔'
جلیلہ کے مطابق: 'جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں وہاں ذاتی عناد کارفرما ہوتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'حالیہ واقعے اور شہر میں امن وامان کی صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے میں نے قومی جرگے کا مطالبہ کیا ہے اور اپنے گھر پر اس جرگے کے انعقاد کی دعوت دی ہے، جس کے لیے میں نے سرکردہ سیاسی رہنماؤں سے رابطے بھی شروع کردیے ہیں۔'
جلیلہ کے بقول عالمی اور مقامی سیاسی حالات کےتناظر میں موجودہ واقعات خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
ادھر مقتول بلال کے والد نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے کوئٹہ شہر میں امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ میرے بیٹے کے قتل میں ملوث ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں، اس لیے ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور شہر کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔