جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وفاق سے چار سوالوں کے جواب طلب کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بینچ نے منگل کو ان درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں بیرسٹر فروع نسیم نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ وہ اس کیس میں وفاق اور شہزاد اکبر کی پیروی کریں گے، جبکہ فروغ نسیم کو اسی کیس میں ذاتی حیثیت میں جو نوٹس ملا ہے، اس کے لیے ان کی نمائندگی سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کریں گے۔
فروغ نسیم کے روسٹرم پر آنے کے بعد کراچی رجسٹری سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر فروغ نسیم کی اس کیس میں نمائندگی سپریم کورٹ کے قواعد کے خلاف ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ’فروغ نسیم کو پیش ہونے کے لیے اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا کیونکہ قواعد وفاقی حکومت کو نجی وکیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اٹارنی جنرل آفس سے کوئی سرکاری وکیل پیش ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اٹارنی جنرل کو سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔‘
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’آپ اعتراض نہ اٹھائیں اور کیس کو آگے بڑھنے دیں۔ موسم گرما کی تعطیلات بھی شروع ہونے والی ہیں، ہم کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
جس پر فروغ نسیم نے دلائل شروع کیے اور دوران سماعت اٹارنی جنرل آفس سے سرٹیفکیٹ بھی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
فروغ نسیم نے دلائل کے دوران کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں۔ بار الزام جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر ہے، انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ جائیدادیں کیسے خریدیں۔ بار الزام وفاق پر نہیں ہے۔ اس معاملے کو ٹیکس کا معاملہ نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک جج کے کوڈ آف کنڈکٹ سے متعلق معاملہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک جج پر ٹیکس چوری یا جائدادیں بنانے کا الزام لگا سکتے ہیں؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’میرا بیٹا کوئی جائیداد خرید لیتا تو کیا اس کا جواب دہ میں ہوں گا؟ اگر معاملہ خود کفیل بیوی بچوں کی پراپرٹی کا ہے تو جج کا کیا تعلق ؟ پہلے یہ بتائیں کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ہیں۔‘
جس کا جواب دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ ’یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے کہ جائیدادیں ان کی نہیں ہیں، جہاں تک کفالت کی بات ہے تو کفالت کا تعین ہونا باقی ہے۔‘
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹیکس کا معاملہ نہیں۔ یہاں پر تو سارا معاملہ ہی ٹیکس، جائیداد اور منی ٹریل کا ہے۔‘
دوسری جانب جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے تو ایک جج پر بغیر ثبوت الزام عائد کیے ہیں۔ آپ نے ٹھوس شواہد بھی نہیں دیے۔‘
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر یہ محض الزامات تھے تو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو نوٹس کیوں جاری کیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ اسی نوٹس اور کونسل کی کارروائی کو تو جسٹس عیسٰی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی اور اس کے شوکاز نوٹس پر کیوں انحصار کر رہےہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی اکیڈمک کاروائی ہوتی ہے۔ جب معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا تو کونسل کا نوٹسمحض سادہ کاغذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ اپنا کیس ثابت کریں کونسل کو چھوڑ دیں۔'
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کرکے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے؟ اس بات پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہا کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟ کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟'
جس پر حکومتی وکیل فروغ بسیم نے کہا کہ 'جوڈیشل کونسل ریفرنس کا جائزہ لے کر مسترد کرسکتی ہے۔ جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل اور معزز جج کو سننے کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا۔'
جسرٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'شوکاز نوٹس کی اپنی اہمیت ہے۔ درخواست میں بدنیتی کا الزام بھی ہے۔ معزز جج کے وکیل منیر اے ملک نے شوکاز نوٹس پر دلائل دینے میں ہچکچاہٹ دکھائی اور درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیئے۔'
جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا؟ ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا؟سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں۔'
فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ بادی النظر میں صدر کی طرف سے ریفرنس دائر ہوتا ہے تو جوڈیشل کونسل اس پر کارروائی کرتی ہے۔ اگر ایک عام شہری کی جانب سے شکایت آئے تو کونسل اپنے طور پر انکوائری کر سکتی ہے۔ اگر ریفرنس صدر کی طرف سے دائر ہو تو پھر کونسل اس پر کاروائی کرتی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'میری سمجھ کے مطابق صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس میں لگائے گئے الزام کی انکوائری کی ضرورت نہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل صدر کی جانب سے دی گئی معلومات پر کارروائی کرتی ہے۔ اگر ریفرنس صدر کی جانب سے نہ ہو تو پھر لگائے گئے الزامات کی انکوائری کونسل کا اختیار ہے۔'
فروغ نسیم کے دلائل کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے چند سوالات کا جواب طلب کرتے ہوئے انہیں تیاری کے لیے 12 گھنٹے دیے اور سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
عدالت کے سوالات کیا تھے؟
پہلا سوال: آپ نے ریفرنس کا مواد غیر قانونی طور پر اکھٹا کرنے پر دلائل دینے ہیں۔
دوسرا سوال: شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی؟
تیسرا سوال: شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی
چوتھا سوال: اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کیں؟ اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے؟