وزیرستان: جرگے کا اے این پی رہنما کا گھر مسمار کرنے کا فیصلہ واپس

ذرائع کے مطابق عوامی نیشل پارٹی کے رہنما ایاز وزیر نے احمد زئی قوم کے جرگے کی جانب سے پولیس چھاپوں کو روکنے کے نکتے پر اعتراض اٹھایا تھا، جس پر جرگے نے ایاز وزیر کا گھر مسمار کرنے کے لیے چھ جون کا دن مقرر کیا تھا۔

 احمد زئی قبیلے کے جرگے نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایاز وزیر کا گھر مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا (تصویر: سوشل میڈیا)

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں احمد زئی قوم کے جرگے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ایاز وزیر کے گھر کی مسماری کا فیصلہ مقامی انتظامیہ  اور سیاسی رہنماؤں کی کوششوں سے واپس لے لیا گیا جبکہ جرگے نے حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے حکومت کو ہر قسم کی معاونت کی یقین دہانی بھی کروائی۔

جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا میں گذشتہ کئی دنوں سے مقامی افراد پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما عارف وزیر کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ وزیرستان میں حکومتی رٹ قائم کی جائے اور کسی بھی غیر  ریاستی تنظیم یا عناصر کو وزیرستان کا امن خراب نہ ہونے دیا جائے۔

مظاہرین کے مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ پی ٹی ایم رہنما عارف وزیر کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکایا جائے جبکہ انگور اڈہ کو ہر قسم کی تجارت کے لیے کھولنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان ہی مطالبات پر بات کرنے کے لیے ایک جرگہ بلایا گیا تھا جس میں حکومتی نمائندوں سمیت علاقے کے عمائدین بھی شریک تھے.

گذشتہ روز شروع ہونے والے اس جرگے میں مظاہرین نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے، جن میں غیر ریاستی عناصر کے دفاتر کی بندش اور بازاروں میں گشت سمیت ان پر مکمل پابندی ، کالے شیشوں والے گاڑیوں پر پابندی سمیت امن کمیٹی کے دفاتر بند کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔

جرگے کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پولیس اور لیویز اہلکار لوگوں کے گھروں پر چھاپے نہیں ماریں گے  کیونکہ ان کے ساتھ کوئی خاتون پولیس اہلکار نہیں ہوتی اور چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہوتا ہے۔

 تاہم ذرائع کے مطابق عوامی نیشل پارٹی کے رہنما ایاز وزیر نے جرگے کے اس نکتے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس ملزموں کے گھروں پر چھاپے مارتی ہے، جس پر جرگے نے ایاز وزیر کا گھر مسمار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے چھ جون کا دن مقرر کیا گیا۔

تاہم اس کی مخالفت میں عوامی نیشنل پارٹی سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے وزیرستان سے منتخب اراکین اسمبلی  بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور آج اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔

جرگے نے حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے حکومت کو ہر قسم کی معاونت کی یقین دہانی بھی کروائی۔ (تصویر: رسول داوڑ)


اس حوالے سے حکومت، ایاز وزیر اور احمد زئی قوم تینوں کی نمائندگی کرنے والے جرگہ ممبر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما تاج وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے نے گھر کی مسماری کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور حکومت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ احمد زئی قوم  حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

تاج وزیر نے بتایا: 'جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے پولیس کو مزید فعال جبکہ جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر کا دفتر اپنے ہی ضلع میں قائم کیا جائے تاکہ عوام کو سہولت ہو۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ علاقے میں کسی قسم کے غیر ریاستی عناصر کے خلاف حکومت  کارروائی کرے گی۔'

جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر حمیداللہ نے بھی جرگے کا فیصلہ واپس لینے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گھر مسماری کے حوالے سے جو تنازع سامنے آیا تھا اس کو حکومتی نمائندگان اور جرگہ ممبران نے  گفت و شنید کے ذریعے پر امن طریقے سے حل کیا۔

'پرانی روایات کی اب کوئی جگہ نہیں'

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالقیوم آفریدی نے قبائلی اضلاع میں گھر مسماری کی روایت کے حوالے سے بتایا کہ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں جرگے کے فیصلے یا کسی مخصوص قبیلے کے ملک کی طرف سے گھر مسماری کی روایت عام تھی لیکن انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کے قوانین وہاں لاگو ہو چکے ہیں  اور  پرانے اور اس قسم کی فرسودہ روایات کی اب کوئی جگہ نہیں بنتی۔

تاہم آفریدی کے مطابق اب بھی قبائلی اضلاع میں یہ روایت موجود ہے اور اس کی مثال چند ماہ قبل ضلع خیبر میں سامنے آئی تھی، جب دو بچوں کو کنویں میں زندہ ڈال کر قتل کرنے کے الزام میں ایک مسجد کے موذن اور ان کے بیٹے کا گھر مقامی جرگے کے فیصلے پر جلا کر مسمار کیا گیا تھا۔

عبدالقیوم نے بتایا: 'اس مسماری کے خلاف مقامی انتظامیہ یا پولیس کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی میڈیا میں اس کو اتنا کور کیا گیا تھا جتنا جنوبی وزیرستان کے واقعے کو کیا گیا ، جس کی وجہ سے پریشر بڑھتا گیا اور جرگے نے ایاز وزیر کی گھر کی مسماری کا فیصلہ واپس لے لیا۔'

انہوں نے بتایا کہ انضمام کے بعد اس فیصلے سے گھر مسماری جیسی پرانے روایات کو عملی طور پر پھانسی دے دی گئی کیونکہ اس کیس میں مقامی سیاسی رہنماؤں اور سماجی کارکنان کی طرف سے بہت مزاحمت دیکھنے کو ملی۔

اس حوالے سے وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'اس قسم کی روایات کو بہت پہلے ختم ہوجانا چاہیے تھا جب عدالتی نظام سمیت ملک کے دیگر قوانین قبائلی اضلاع میں نافذ ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'مسماری کا فیصلہ واپس لینا اور  اس روایت کے خلاف قدم اٹھانا ایک خوش آئند بات ہے تاہم اب بھی مسائل موجود ہیں کیونکہ جنوبی وزیرستان میں ہم نے اب تک کوئی جج نہیں دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ عوام اس نظام سے ابھی تک نا آشنا ہیں۔'

محسن داوڑ کا کہنا تھا: 'عوام کو عدالتی نظام سمیت تمام امور میں آسانیاں پیدا کرنی چاہیے تاکہ ان کو اس نظام پر اعتماد مضبوط ہو سکے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان