لوگ قبرستان نہیں آتے، نہ احساس پروگرام سے کچھ ملتا ہے: گورکن

برسوں سے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں گورکن کا کام کرنے والے محبوب کا کہنا ہے کہ کرونا کے ڈر سے لوگوں نے اپنے پیاروں کی قبروں پر آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

 کرونا (کورونا) وائرس کی وبا نے جیتی جاگتی دنیا میں سماجی فاصلوں کی طرح شہرِ خموشاں کے مکینوں سے بھی فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ 

گورکن محبوب ڈیرہ اسمٰعیل خان کے قدیمی قبرستان کوٹلی امام حسین میں 27 سالوں سے مُردوں کی تدفین، قبروں کی مرمت اور رکھوالی کرتے آرہے ہیں، انہی خدمات کے عوض وہ اور ان کے بچے دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔ تاہم کرونا وائرس کی وبا سے آنے والی تبدیلی انہوں نے بھی محسوس کی۔

محبوب سے کوٹلی امام حسین میں دس پندرہ منٹ کی ملاقات میں انہوں نے حیرانی سے زیادہ پریشانی کے تاثرات کے ساتھ برصغیر کی صدیوں پرانی روایات کے کرونا کی وجہ سے بدلے جانے کی طرف اشارہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پچھلے تین ماہ میں لوگ قبرستانوں کی طرف بالکل نہیں آرہے، جبکہ پہلے عید، محرم تو الگ بات، عام دنوں میں بھی لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر آتے تھے، ان سے باتیں کرتے تھے، یہاں تک کہ شادی بیاہ کی خوشخبری بھی دیتے تھے، قبروں پر بارش اور دیگر موسمی اثرات کا جائزہ لیتے تھے، مگر کرونا وبا کے بعد اس میں غیر معمولی کمی آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے محبوب سے قدرے چھیڑنے کے انداز میں کہا کہ یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن میں ایکسڈنٹ اور دیگر حادثات میں نمایاں کمی آئی ہے جس سے آپ کا روزگار نہیں چل رہا، تو انہوں نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں۔ ’خدا وہ دن نہ لائے کہ میں اپنا روزگار لوگوں کے مرنے سے جوڑوں۔ میرا تو قبروں کی مرمت، لپائی اور دیکھ بھال سے بھی روزگار چل رہا تھا۔‘

محبوب کے روزگار پر کافی فرق پڑا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کے احساس پروگرام سے امداد حاصل کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے شناختی کارڈ کی معلومات بھی جمع کروائیں لیکن انہیں کہا گیا کہ وہ پروگرام کے لیے نا اہل ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ممکن ہے کہ جب کرونا کا خوف ختم ہو جائے ہو سکتا ہے لوگ اپنے رشتہ داروں کی قبروں پر آنے کی اپنی روایت پر دوبارہ عمل پیرا ہو جائیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کرونا وبا غیر معمولی ہے اور اس نے زندگیوں کو جھنجھوڑا ہے، بہت کچھ بدلا ہے اور بہت کچھ بدلے گا۔

زندہ سماج کی علامت سماجی رابطے ہی ہوا کرتے ہیں لیکن اب انسانی بقا کے لیے زندہ انسانوں کے درمیان سماجی رابطے کم اور فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے ہی شہرِ خموشاں کے مکینوں سے بھی رشتہ کمزور ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا