اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حق میں مشروط حکم امتناع جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک ملک بھر میں عام آدمی کے لیے چینی 70 روپے فی کلو فروخت کرنے کا حکم دے دیا۔
چینی کی قیمتوں میں اضافے پرانکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 'اگر کمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا تو پھر کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت عمومی طور پر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن چینی ایک مزدور کی ضرورت ہے، وہ کوکا کولا پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ لیکن عام آدمی کو بنیادی حقوق کیوں نہیں دے رہے؟'
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکرموجود ہے۔ فروری میں کارروائی کے لیے ایڈہاک کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو لکھا کہ آپ ہمیں کمیشن بنادیں اور کمیشن کو قانونی کور کیا جائے۔'
مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن نے شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کو لکھا۔ جیسی کمیٹی نے تجویز دی تھی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس کمیشن نے پھر کیا کیا، چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟
جس پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل نے جواب دیا کہ کمیشن نے 324 صفحات کی رپورٹ میں بہت زیادہ وجوہات بیان کی ہیں۔ کمیشن نے سفارش کی کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 'کمیشن نے کیا بتایا کہ عام صارف کے لیے چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟ جتنی آپ کی پروڈکشن ہوتی ہے اس میں سے عام عوام کے لیے کتنا ہوتا ہے؟ چینی عام آدمی کی ضرورت ہےحکومت کو بھی اس حوالے سے ہی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ سادہ سی بات ہے کہ یہ عام آدمی کا بنیادی حق ہے، 30 فیصد چینی عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔'
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل نے جواب دیا کہ 'کمیشن کے مطابق شوگر بہت زیادہ موجود تھی لیکن ماحول ایسا بنایا گیا کہ شوگر کم ہے اور وہ کم یاب ہو گئی۔ عام آدمی اور کمرشل استعمال کی چینی کی قیمت کو کمیشن نے الگ الگ نہیں کیا۔'
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 'اگر کمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا پھر کیا کیا؟حکومت کی توجہ کمرشل ایریا پر نہیں عوام پر ہونی چاہیے۔ دو سال پہلے چینی کی قیمت کیا تھی؟'
مخدوم علی خان نے جوابی دلائل دیے کہ 'کمیشن نے عام عوام تک چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ نومبر2018 میں چینی کی قیمت 53 روہے تھی۔'
چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ 'دو سال میں 85 روپے ہو گئی؟ عام عوام کیوں متاثر ہو رہا ہے یہ چیز کمیشن کوایڈریس کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ چینی ایک غریب آدمی کی ضرورت ہے وہ ایسے فیصلوں سے کیوں متاثر ہورہا ہے؟ کمیشن نے عام آدمی کی سہولت کے لیے کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔'
مخدوم علی خان نے کہا کہ 'کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کاروائی کی۔ انکوائری کمیشن کا مقصد عام آدمی کوریلیف مہیا کرنا نہیں بلکہ ہمارا میڈیا ٹرائل تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ معاون خصوصی اور دیگر وزرا کے ذریعےہمارا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'عدالت میں کیس ہونے کے باوجود گزشتہ رات بھی معاون خصوصی نے پریس کانفرنس کی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم حکومت کو نوٹس کرکے پوچھ لیتے ہیں لیکن آپ اس وقت تک 70 روپے کی قیمت پر چینی بیچیں۔ آپ کو شرط منظور ہے تو ہم آئندہ سماعت تک حکومت کو کاروائی سے بھی روک دیتے ہیں۔' انہوں نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن نے عام آدمی کے لیے چینی کی قیمت میں کمی کی سفارش نہیں کی تو اور کیا کیا؟
سماعت ایک گھنٹہ جاری رہی۔ چیف جسٹس سمیت کمرہ عدالت میں موجود تمام افراد نے ماسک پہن رکھے تھے۔ عمومی طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرہ عدالت میں رش ہوتا ہے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے کرسیاں سماجی دوری کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر وقفے سے لگائی گئیں۔
عدالت نے شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئےسیکرٹری کابینہ ڈویژن،سیکرٹری داخلہ،وزیراعظم کے معاون خصوصی مرزا شہزاد اکبر ، ڈی جی ایف اے واجد ضیا،ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب، ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی کو نوٹسز جاری کر دیے۔ اس کے علاوہ ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے ڈی جی انوسٹی گیشن اینڈ انٹیلی جنس کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو کیس دس روز کے بعد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چینی کی قیمتوں میں اضافہ پرانکوائری کمیشن کی رپورٹ کو جہانگیر ترین سمیت 16 ملز مالکان نےشوگر ملز ایسوسی ایشن نے انکوائری رپورٹ کو چیلنج کیا تھا اور درخواست میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ کالعدم قرار دینے اور حکومت کو کارروائی سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ فرانزک آڈٹ کے لیے بھی صرف چند شوگر ملز کو منتخب کیا گیا۔ انکوائری کے دوران مرزا شہزاد اکبر کا کردار انتہائی منفی رہا۔انکوائری متصعب ذہن کے ساتھ کی گئی، رپورٹ کا مقصد بدنام کرنا تھا اور کمیشن نے تحقیقات کرتے ہوئے مجوزہ قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
ملک میں چینی بحران پیدا ہونے پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ کر کے تفصیلی رپورٹ دی جس میں جہانگیر ترین سمیت دیگر شوگر ملز مالکان کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ وہ اپنے دفاع میں انکوائری کمیشن رپورٹ عدالت میں چیلنج کریں گے۔
جبکہ دو روز قبل ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کارروائیوں کی منظوری دی تھی۔