بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ ستر سالہ رشتے کو، صوبے میں کئے جانے والے فوجی آپریشنز، بلوچ رہنماؤں کے ساتھ کئے گئے جھوٹے وعدوں اور شہادتوں کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف بلوچستان میں جاری و ساری ان مسائل پر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو 2020 میں بلوچستان کے حصے میں آئے ہیں۔
یوں تو 2020 دنیا کے تمام انسانوں کے لیے انتہائی سخت ترین ثابت ہو رہا ہے۔ البتہ اس سال دنیا میں موجود تمام ایٹمی طاقتوں سمیت دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو بھی اندازہ ہوا چلا ہے کہ انسانیت کی بقا نہ تو ایٹم بم میں پوشیدہ ہے اور نہ ہی اربوں ڈالرز خرچ کر کے جاسوسی میں ہے۔ بلکہ انسانیت کی بقا و حقیقی ترقی کی ضامن صرف اور صرف سائنسی تجربات کا بہتر و موثر انداز میں استعمال کرنا ہے۔
اگر اربوں ڈالر کے ایٹم بم بنانے کی بجائے انسان کو زندگی بخشنے والی میڈیکل سائنس پر خرچے کئے جا رہے ہوتے تو آج کرونا (کورونا) وائرس جیسے معمولی مگر انتہائی مہلک مرض سے چاند و مریخ پر پہنچنے والا انسان گھر سے باہر قدم رکھنے کے لیے بھی سو مرتبہ نہ سوچتا۔
لیکن جہاں دنیا اس انتہائی خطرناک و مہلک بیماری سے نجات کی تلاش میں لگی ہے وہیں پہلے ہی وبا جیسی زندگی گزارنے والے بلوچستان میں 26 مئی کی شب ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف بلوچستان کی تاریخ میں اپنے نقوش درج کرا لیے ہیں بلکہ بلوچ تاریخ میں موجود بہادر، دلیر و باہمت عورتوں کی ان کہانیوں اور کرداروں کو شہید ملک ناز بلوچ نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنی بیٹی برمش کو بچا کر اور چوروں سے مزاحمت کر کے ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا۔
چھبیس مئی کو جب امریکہ سے شروع ہونے والا بلیک لائیوز میٹر کا ٹرینڈ دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت جسٹس فار برمش کے نام سے بلوچ عوام نے سوشل میڈیا پر ڈنک تربت واقعے کے حوالے سے مہم شروع کرکے چار سالہ برمش بلوچ کے لیے انصاف کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔
سوشل میڈیا سے وائرل ہونے والی جسٹس فار برمش مہم بلوچستان کے اس علاقے پہنچی جو اہل پنجاب کے لیے اس لیے مشہور ہے اور وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ وہاں سے سی پیک روٹ گزر رہا ہے، گوادر پورٹ بن رہا ہے اور یہ کہ اس پورٹ اور سی پیک سے پورے پاکستان کو بہت فاہدہ ہوگا۔ لیکن وہ اس بات سے بالکل ناواقف ہیں کہ گوادر زندہ لوگوں کی بستی ہے، جہاں بسنے والے لوگ بولتے بھی ہیں، چیختے بھی ہیں اور بہ وقت ضرورت اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر بھی نکل آتے ہیں۔
گوادر سے اٹھنے والی ایک چنگاری ایک بزرگ بلوچ کی وہ تقریر جس میں وہ بلوچستان کی بیٹی شہید ملک ناز کے قاتلوں اور برمش کو زخمی کرنے والے ڈیتھ سکواڈز کے کارندوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بلوچستان اس وقت تک خاموش نہیں رہے گا جب تک برمش کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گوادر سے شروع ہونے والے احتجاج نے پورے بلوچستان کو اس طرح اپنے آغوش میں لے لیا جیسے جنگل میں آگ پھیل جاتی ہے۔ پھر وہ خوف جو ڈیتھ سکواڈ اور ریاستی قوتوں نے بلوچستان میں پھیلایا ہوا تھا وہ خوف، وہ جمود، وہ برف پگھلتی نظر آئی اور بلوچستان نے پھر اپنے مطالبات کو مزید وسعت دیتے ہوئے ان مسائل کی نشاندہی شروع کی جو اب تک بلوچستان کے سینے پر مخلتف طریقوں سے مسط کیے گئے تھے۔
ان مسائل میں، بلوچستان بھر میں مبینہ سرکاری سرپرستی میں قائم ڈیتھ سکواڈ کا مکمل خاتمہ کر کے بلوچستان کو ان چور و لٹیروں سے پاک کرنا ہے۔ بلوچستان میں سرکاری سرپرستی میں سرعام جاری منشیات فروشی کی مکمل روک تھام سمیت بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیوں کو ختم کر کے لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے کا حق دیے جانے سمیت بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ کی بحالی کے مسائل شامل ہیں۔ ان مسائل سمیت بلوچ طالب علموں کی جانب سے بلوچستان میں آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔
بلوچستان میں احتجاج کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور اسی احتجاجی سلسلے کے درمیان کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے بلوچ طالب علم رہنما ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو گیارہ سال پورہ ہونے والے دن 8 جون کو لاپتہ بلوچوں کے دن کے طور پر منا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ یہ احتجاج بھی ان تمام احتجاجوں کی طرح خاموشی سے بغیر کسی اخبار یا الیکٹرانک میڈیا کے نیوز کا حصہ بن کر ختم ہوجاتا اگر حسیبہ قمبرانی کی آنسو بہاتی اور لرزتی آواز میں بنائی گئی اپیل کی ویڈیو منظرعام پر نہیں آتی۔ آج حسیبہ قمبرانی کی ویڈیو کے بدولت کم از کم بلوچستان کے ایک لاپتہ افراد کے خاندان کو وزیراعظم پاکستان کے آفس سے ملاقات کے لیے بلایا گیا ہے۔
بلوچستان میں امن و امان کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے لیے مسائل کی یہ چھوٹی سی فہرست ہی کافی ہے۔ یہ بلوچستان کے سنگین مسائل کا ایک فیصد بھی نہیں۔