محمد عرفان جب 14 جون کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پرواز سے ریاض سے پشاور پہنچے تو ایئرپورٹ پر ان کے (کرونا) کورونا وائرس ٹیسٹ کے نمونے لینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ آج پانچ دن بعد بھی عرفان کو ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار ہے۔
جب وہ ریاض میں تھے تو ان کے ہاں پاکستان میں بیٹے کی پیدائش ہوئی لیکن گھر پہنچنے کے پانچ دن بعد بھی انہوں نے اب تک اپنے بیٹے کو گود میں نہیں لیا کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر ٹیسٹ مثبت آیا تو کرونا وائرس ان سے بچے کو منتقل ہو سکتا ہے۔
عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے سعودی عرب میں تین مہینے گھر میں بند رہ کر گزارے، جس سے ان پر ذہنی دباؤ بڑھا مگر اب نتیجے کے انتظار میں پانچ دن ان تین مہینوں سے بھی بھاری لگ رہے ہیں۔ ’صبح و شام یہی سوچتا ہوں کہ ٹیسٹ رزلٹ منفی ہوگا یا پازٹیو، مجھے رزلٹ کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔‘
عرفان نے بتایا کہ اس اذیت سے گزرنا بہت پریشان کن ہے کہ آپ گھر میں اکیلے کمرے میں پڑے ہوں اور ایک سال بعد گھر آکر بھی اپنی بیوی سمیت گھر والوں سے نہ مل سکیں۔
عرفان کی طرح بہت سے ایسے کرونا وائرس کے مشتبہ افراد ہیں جن کے ٹیسٹ کے نمونے تو لیبارٹری بھیج دیے گئے لیکن انہیں کئی دونوں سے رزلٹ کا انتظار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور میں جیو نیوز کے رپورٹر محمد رسول داوڑ میں گذشتہ بدھ کو کرونا وائرس کی علامات سامنے آنے لگی تھیں، جس پر انہوں نے خود کو احتیاطی طور پر گھر میں قرنطینہ کر لیا۔ داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ ہفتے انہوں نے ٹیسٹ کروایا لیکن ابھی تک رزلٹ موصول نہیں ہوا جبکہ ان کی صحت اب پہلے سے کافی بہتر ہے۔
’ایسے رزلٹ کا کیا فائدہ؟ اگر ایک بندہ قرنطینہ میں رہ کر مکمل صحت یاب ہو جائے اور پھر رزلٹ مثبت بھی آجائے تو کیا پتہ چلے گا کہ ہفتے دو ہفتے بعد ان میں کرونا وائرس موجود ہے یا نہیں۔‘
خیبر پختونخوا حکومت آئے روز دعوے کرتی ہے کہ ٹیسٹ کی استعداد بڑھائی گئی ہے تاہم اب نتائج موصول ہونے میں تاخیر کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں ٹیسٹ رزلٹ 24 سے 48 گھنٹوں میں موصول ہوتے تھے لیکن اب کچھ ٹیسٹ رزلٹ آنے میں ایک ہفتے سے 14 دن لگ رہے ہیں۔
پشاور کے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے بھی تین جون کو کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ دیا تھا لیکن دو ہفتے سے زائد گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کا رزلٹ موصول نہیں ہوا۔
محمود جان بابر کے مطابق محکمہ صحت نے پشاور پریس کلب کے ارکان کے کرونا ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تھا، اسی سلسلے میں محکمہ صحت کے نمائندے تین جون کو پریس کلب آئے اور ٹیسٹ کیے لیکن آج تک ان کے نتائج نہیں دیے۔
بابر نے کہا: ’نمونہ دینے کے بعد سات دن تک میں مسلسل محکمہ صحت کے نمائندوں سے ٹیسٹ رزلٹ کے بارے میں پوچھتا رہا پھر میں نے ان سے رابطہ کرنا ہی چھوڑ دیا حالانکہ طریقہ کار یہ ہے کہ لیب والے ہر ایک شخص کو خود پیغام بھیجیں گے کہ ان کا ٹیسٹ رزلٹ آگیا ہے۔ ساتھ میں وہ ایک لاگ ان آئی ڈی بھی دیتے ہیں جس پر مریض اپنا ٹیسٹ رزلٹ دیکھ سکتے ہیں۔‘
بابر نے بتایا کہ جب انہوں نے رزلٹ کے بارے میں حکومتی ہیلپ لائن نمبر پر رابطہ کیا تو وہ کبھی کہتے کہ آپ کا ڈیٹا اپ ڈیٹ نہیں ہوا، کبھی کہتے کہ آپ کے ٹیسٹ کے لیے نمونہ ہی لیب نہیں پہنچا اور کبھی یہ کہ ہمارے ڈیٹا سسٹم میں خرابی آگئی ہے۔
’مجھے تو کوئی خاص علامات نہیں تھیں تاہم اگر میرا رزلٹ مثبت آجاتا، جو ابھی تک رزلٹ نہیں آیا، تو میں کتنے لوگوں کو یہ وائرس منتقل کر دیتا۔ اگر بروقت ٹیسٹ نتیجہ ملتا ہے تو ہر ایک شخص خود کو آئسولیٹ کر لے گا اور اس سے وائرس کی پھیلاؤ رک سکے گا۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی کرونا ٹاسک فورس کے رکن زین رضا سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ عیدالفطر کے دنوں میں کچھ ٹیسٹ نمونے رہ گئے تھے جن پر اب کام ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے نئے نمونوں کے رزلٹ آنے میں تاخیر ہوئی۔
’بدقسمتی سے کچھ ٹیسٹ نتائج میں کافی تاخیر ہوئی۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ٹیسٹ تو ہو چکے ہیں لیکن لیب آن لائن رپورٹنگ سسٹم پر شفٹ ہو رہی ہیں تو اسی وجہ سے کچھ نتائج میں تاخیر ہوئی۔ تاہم اب ہماری کوشش ہے کہ ٹیسٹ رزلٹ جلد از جلد لوگوں کو دیے جائیں۔‘