بھولے کا تعلق ایک غریب اور پسماندہ گاؤں سے تھا۔ وہ سالہا سال سے مشکلات کا شکار چلا آ رہا تھا۔ غربت، بےروزگاری بہت زیادہ تھی۔ گاوں میں ایک پرانی بس لوگوں کو شہر لے کر جاتی تھی۔
بس کا ڈرائیور صحت مند کھاتا پیتا آدمی تھا۔ کلینر، اڈہ منشی، ٹکٹ والا سارے اس کے گھر کے لوگ یا یار دوست تھے۔ گاؤں والوں کا خیال تھا کہ پچھلے ڈرائیور کی طرح وہ بھی منشی، کلینر اور چودھری سے مل کر مال بنا رہا ہے اور گاوں والوں کو ہر طرح سے لوٹ رہا ہے۔ کبھی مرمت کے نام پر ٹکٹ کا نرخ زیادہ کر دیا، کبھی پٹرول مہنگا ہونے پر۔ گاؤں والے عاجز آگئے تھے لیکن ڈرائیور اور اس کے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔
پھر ایک دن بھولے اور اس کے ہم خیال لوگوں کو موقع ملا اور انہوں نے ایک نیا ڈرائیور ڈھونڈ لیا جس کے بارے میں بھولے سمیت سب کا خیال تھا کہ وہ ایک نیک آدمی ہے۔ کسی نے کہا کہ اس نے سائیکل کے علاوہ زندگی میں کچھ چلایا ہی نہیں، اتنی بڑی بس کیسے چلائے گا، اتنے سارے لوگوں کی زندگی کا بھی تو سوال ہے؟
لیکن پہلے والے ڈرائیوروں سے عاجز آنے والے لوگوں اور نوجوانوں نے امید دلائی کہ کوئی بات نہیں، سیکھ جائے گا۔ سائیکل تو ویسے بھی چلا چکا ہے۔ نئے ڈرائیور نے آتے ہی اڈہ منشی، کلینر، ٹکٹ والے سب بدل دیے اور اپنے ان یار دوستوں کو ذمہ داریاں دے دیں جنہوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا تھا۔
اب کئی ماہ سے روز بس کے ایکسیڈنٹ پر ایکسیڈنٹ ہو رہے تھے۔ حادثات میں کئی سواریاں ہاتھ، ٹانگ اور سر تڑوا چکی تھیں۔ بس کئی کئی دن پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کھڑی رہتی تھی۔ نوجوان شہر نہ جا پانے کی وجہ سے بےروزگار ہو چکے تھے۔ گاؤں میں غربت میں اضافہ ہوا اوپر سے دکانداروں نے آٹے، دال اور ادویات کے نرخ کئی گنا بڑھا دیے۔
دو سال بعد بھی ڈرائیور سے گاڑی صحیح طرح سے نہیں چل پا رہی تھی۔ اب تو بھولا اور اس کے گاؤں کے سب لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس ڈرائیور سے پرانے والے ہی اچھے تھے جو اگر کماتے بھی تھے تو گاڑی کو بھی تو چلائے رکھتے تھے اور حادثات بھی کم ہوتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھولا بھی بھی پشیمان ہے۔ البتہ چند ایک ضد میں اڑے لوگ کہتے ہیں تھوڑا اور وقت دے دیں، سیکھ لے گا۔ جب گاؤں والے بات کریں تو وہ پرانے ڈرائیوروں کی برائیاں گننے لگتے ہیں یا کہتے ہیں ساتھ والے فلاں، فلاں گاؤں کو بھی تو ان کے ڈرائیور کی وجہ سے روز نقصان ہو رہا ہے۔
کبھی بارش اور طوفان کو الزام دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بس نہیں چل پا رہی۔ مگر اپنے ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں کو نہیں کہتے کہ یار تھوڑی کارکردگی بہتر کرو۔ مخالفین کہتے ہیں اسی طرح موسمی حالات ہر دور میں آتے ہیں لیکن پہلے سواریوں کو اتنی تکلیف اور نقصان کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ خوش اس وقت بھی نہیں تھے لیکن اب ناامید بھی ہو گئے ہیں۔
بھولے کا خیال ہے کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں، راستہ چاہے جتنا بھی کھٹن ہو، اچھا اور کامیاب ڈرائیور تو ہے ہی وہی جو گاڑی کو بہتر انداز میں چلائے رکھے اور سواریوں کو آرام اور سہولت دے۔
بھولا اور اس کے گاؤں کے لوگ ناامید ہو رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاید ان کی قسمت میں سالہا سال سے یہی لکھا ہے۔ سابق ڈرائیوروں کے دوست احباب اور حامی بھولے پر ہنس رہے ہیں۔ کئی لوگ اسے طعنے بھی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں جذباتی ڈرائیور سے کسی دن بس پہاڑ سے نیچے ہی نہ گر جائے۔ وہ تو خود چھلانگ لگا کر جان بچا لے گا اور کپڑے جھاڑ کر کسی اور گاؤں نکل جائے گا۔ بھولا، گاؤں کے لوگ اور ان کے بچے برباد ہو جائیں گے۔