ایک اسلام مخالف اشتہار جس میں یہ کہا گیا کہ ’اسلام‘ جلد ہی نیشویل شہر پر ایک ایٹمی بم پھینکے گا کے شائع ہونے کے بعد امریکی شہر ٹینیسی کے سب سے بڑے اخبار نے اپنی ہی بدانتظامی پر تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کو ’دا ٹینیسیئن‘ میں چھپنے والے اشتہار میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’امریکہ کے آخری صدر ہیں‘ اور اس میں پوپ فرانسس اور امریکی صدر کی تصویر بھی شامل تھی۔
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی بہت کم جانی جانے والی ایسوسی ایشن ’فیوچر فار امریکہ‘ نے اخبار میں یہ اشتہار دیا جس میں امریکی شہر نیش ویل پر ’اسلامی‘ جوہری حملے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اخبار نے اعتراف کیا اسی طرح کے دعوے کرنے والا ایک اور اشتہار 17 جون کو بھی چھپا تاہم اس میں اسلام کا ذکر نہیں تھا۔
اس اشتہار میں نیش ویل کے رہائشیوں کو ہونے والے حملے کی تنبیہ کی گئی ’تاکہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ لے سکیں۔‘
اخبار کے نائب صدر اور ایڈیٹر مائیکل اناسٹسی نے اتوار کو کہا: ’یہ ظاہر ہے کہ ہمارے عام طریقہ کار میں کہیں کمی پیشی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے اشتہارات کے مواد کا غور سے جائزہ لینا ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ اشتہار بھیانک ہے اور ہر حال میں اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غلط ہے، بس، اور اس کو چھپنا کی نہیں چاہیے تھا۔‘
مائیکل اناسٹسی کا کہنا تھا: ’اس سے ہماری کمیونٹی کے لوگوں اور ہمارے ملازمین کا دل دکھا ہے اور اس پر مجھے بہت زیادہ دکھ ہے۔‘
’دا ٹینیسیئن‘ نے کہا ہے کہ یہ اشتہار اخبار کے ایڈیٹوریل میعار جس میں نفرت آمیز مواد پر پابندی کی پالیسی ہے کی خالف ورزی ہے۔
سیلز ایگزیکوٹوز، جو اخبار کی ایڈیٹوریل ٹیم سے علیحدہ کام کرتے ہیں، نے اسی اشتہار کو مستقبل کے ایڈیشنز میں شائع ہونے سے روک دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کونسل آن اسلامک امریکن ریلیشنز کے ترجمان ابراہیم ہوپر نے کہا کہ جہاں وہ اخبار کے ردعمل اور تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں، وہیں ’ہم دا ٹینیسیئن پر زور دیتے ہیں وہ پالسی کو اپڈیٹ کریں اور سٹاف کی ٹریننگ کرین تاکہ اس طرح کے نفرت آمیز واقعات مستقبل میں پیش نہ آئیں۔ ہم یہ ٹریننگ دینے کے لیے تیار ہیں۔‘
یہ معلوم نہیں کہ فیوچر فار آمریکہ نے ان دو اشتہاروں کے لیے کتنے پیسے دیے۔
منسٹری آف فیوچر فار امریکہ کے ایک ’سپیکر‘ نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بات کرتے ہوئے کہا کہ ان ادارہ مکمل ری فنڈ کی توقع کر رہا ہے اور یہ کہ وہ ’اشتہار میں دیے گئے مواد پر قائم ہیں۔‘
© The Independent