یہ اکتوبر 2011 کا واقعہ ہے۔ اقوام متحدہ کی پریس گیلری میں بیٹھے ہم سب پاکستانی صحافیوں کے چہرے اس وقت خوشی سے تمتما اٹھے جب اعلان ہوا کہ پاکستان دو سال کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن گیا ہے۔
پاکستان ساتویں بار اس عہدے کے لیے منتخب ہوا تھا۔ ا س نے بڑے سخت مقابلے کے بعد مطلوبہ 129 ووٹ حاصل کیے تھے۔ 193 ووٹوں میں سے 129 ووٹ حاصل کرنا اس وقت کسی انہونی سے کم ہرگز نہ تھا کیونکہ امریکہ سمیت کئی قریبی دوست ممالک بھی پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے۔ پاکستان ڈیسک پر مبارکبادیں دینے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ میاں جہانگیر اقبال جو اس وقت پاکستان مشن میں پریس منسٹر تھے وہ حمایتی ممالک کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔
لابی میں اس وقت کے مستقل مندوب حسین ہارون سے آمنا سامنا ہوا تو ہم نے انہیں مبارک باد دی کیونکہ اس بے مثال کامیابی کے پیچھے حسین ہارون کی کرشمہ ساز شخصیت تھی۔ سینیئر صحافی عظیم میاں بتا رہے تھے کہ کل رات انڈیا کے مستقل مندوب ہر دیپ پوری نے اپنے مشن میں پاکستان کی حمایت میں ایک عشائیہ دیا تھا جس میں دوست ممالک کو پاکستان کی مدد کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور اس عشائیے میں حسین ہارون بھی شریک تھے۔
گذشتہ ہفتے انڈیا آٹھویں بار سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا تو ہمارے ہاں یہ بحث اس انداز سے چلی ہے کہ جیسے انڈیا کی کامیابی ہماری سفارتی شکست ہو۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے اندر کی اپنی ایک الگ سیاست ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ پاکستان اور انڈیا نے یہاں الیکشن میں ایک دوسرے کو سپورٹ کیا ماسوائے 1975 کے الیکشن میں جب دونوں ممالک مدمقابل تھے اور پاکستان نے یہ الیکشن جیت لیا تھا۔
انڈیا نے ڈالے گئے 192 ووٹوں میں سے 184 ووٹ لے کر بھاری اکثریت سے یہ الیکشن جیتا ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے جب اس پر یہ تبصرہ کیا کہ انڈیا کے الیکشن جیتنے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی تو ان کی اس بات کوکئی رنگ دیے گئے۔ حالانکہ اس سے بھی آگے کی بات یہ تھی انڈیا کو ایشیا پیسیفک گروپ کے تمام 55 رکن ممالک کی حمایت حاصل تھی جن جن میں پاکستان اور چین بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبداللہ حسین ہارون جو نگران دور میں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، ان سے جب انڈیپنڈنٹ اردو نے یہ سوال کیا کہ کیا پاکستان بھی آٹھویں بار سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر بن پائے گا؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’جنرل اسمبلی کے اندر کی اپنی سیاست ہوتی ہے جس میں علاقائی گروپوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جو مستقل مندوب ہے ا س کی اپنی صلاحیت کیا ہے؟ اس کی لابنگ کیسی ہے اور وہ کیسے مختلف گروپوں کی حمایت حاصل کر پاتا ہے۔
’2011 کے الیکشن میں جو مثبت بات تھی وہ یہ کہ چار مؤثر گروپوں کی باگ ڈور میرے پاس تھی، ایشیا پیسیفک گروپ کا میں سربراہ تھا۔ افریقی گروپ اور جزیروں کے گروپ کے سارے کام بھی میرے ذمہ تھے۔ مشرقی یورپ کے گروپ میں بھی میری کافی مداخلت تھی۔ لیکن دوسری جانب ہمارے کئی قریبی ممالک جیسے کہ ترکی اور انڈونیشیا ہمارے مقابلے میں کرغزستان کو سپورٹ کر رہے تھے۔ جرمنی اور جاپان ہمارے ڈونر تھے مگر الیکشن میں ہمارے خلاف تھے۔ لیکن ا س میں فیصلہ کن کردار انڈیا کا تھا جس نے نہ صرف خود ووٹ دیا بلکہ آٹھ ووٹ لے کر بھی دیے تھے جن کا پاکستان کی جیت میں کلیدی کردار تھا۔‘
سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت تو پانچ مستقل اراکین کو ہی حاصل ہے باقی غیر مستقل اراکین کی حیثیت علامتی ہے۔ شروع میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین کی تعداد چھ تھی جسے 17 دسمبر 1963 کو قرارداد نمبر 1991 اے کی منظوری کے بعد بڑھا کر 10 کر دیا گیا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ جن دس غیر مستقل اراکین پر مشتمل ہے ان کا انتخاب جنرل اسمبلی ووٹنگ کے ذریعے دوسال کے لیے کرتی ہے۔ قاعدہ نمبر 142 کے تحت جنرل اسمبلی ہر سال پانچ ارکان کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ سیٹیں دنیا کے مختلف حصوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ دس ممبران میں سے پانچ افریقہ اور ایشائی ممالک، ایک مشرقی یورپ، دو لاطینی ممالک، دو مغربی یورپ اور دوسرے خطوں کے لیے مختص ہیں۔
افریقہ اور ایشائی ممالک کے لیے مختص پانچ سیٹوں میں سے دو ایشائی ممالک اور تین افریقی ممالک کے لیے ہیں۔ ان دونوں گروپوں میں ایک انڈر سٹینڈنگ چلی آرہی ہے کہ دونوں گروپ ہر دوسال بعد ایک سیٹ عرب ممالک کو دیں گے۔ قاعدہ نمبر 144 کے تحت کوئی ملک ری الیکشن میں نہیں جا سکتا اور قاعدہ نمبر 92 کے تحت الیکشن خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے ہیں۔ قاعدہ نمبر 83 کے تحت غیر مستقل ممبر بننے کے لیے دو تہائی ووٹ لینا ضروری ہے۔ یعنی 193 ممبران میں سے کم از کم 129 ووٹ لے کر ہی کوئی ملک کامیاب قرار پاتا ہے۔
سلامتی کونسل کا الیکشن جہاں ایک بھر پور سفارتی مہم مانگتا ہے وہاں اس میں پیسے کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ لابنگ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ پاکستان جب یہ الیکشن جیتا تھا تو اگلے سال کی بجٹ دستاویز میں الیکشن مہم کا خرچہ 50 لاکھ ڈالر ظاہر کیا گیا تھا گویا پاکستان کو فی ووٹ تقریباً 38759 ڈالر میں پڑا تھا۔ آج کے حساب سے یہ رقم فی ووٹ تقریباً 64 لاکھ بنتی ہے اور ظاہر ہے یہ پیسہ ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے جاتا ہے۔