’پاکستان اب انڈیا میں دہشت گرد ٹڈیاں بھیج رہا ہے۔ تمہارے بدعنوان ملک پاکستان میں دہشت گرد نہیں رہ گئے۔ ہم نے سب کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔ تو اب پاکستان انڈیا میں دہشت گرد ٹڈیاں بھیج رہا ہے؟ کیا ٹڈیوں کا حملہ پاکستان کی نئی سازش ہے؟‘
یہ کسی افسانوی کتاب میں سے اقتباس نہیں بلکہ وہ جملے ہیں جو بھارت کے ’ریپبلک ٹی وی‘ کے پروگرام کے میزبان ارنب گوسوامی نے اپنے پروگرام میں کہے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بولنے اور اس کو ہدف بنانے کے لیے جنگی جنون سے سرشار بھارت کے پروگرام اور نیوز اینکرز کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو نشانہ بنانا پڑے یا پھر بے زبان پرندے کبوتر کو جاسوس قرار دینا پڑے۔
بھارتی پروگرامز ہوں یا خبریں، پاکستان کا ذکر کرنا لازمی ہے اور پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو بھارت میں ہونے والے ہر برے واقعے کا ذمہ وار ہے۔
’مودی میڈیا‘ کہلانے والے ٹی وی چینلز پر کئی ایسے پروگرام یا خبریں نشر ہوئی ہیں جب میڈیا کچھ زیادہ ہی کر گیا اور کہہ گیا۔
حال ہی میں ایک نیوز اینکر لداخ میں جاری بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے خبر پڑھ رہی تھیں اور سٹوڈیو میں لگی ایک بڑی ٹی وی سکرین کے ذریعے صورت حال سمجھا رہی تھیں۔ سکرین پر ایک جانب لکھا تھا ’پی ایل اے وار ماڈل‘۔ نیوز اینکر نے پی ایل اے کو پیپلز لبریشن آرمی یعنی چینی فوج پڑھنے کے بجائے اسے ’پاکستان لبریشن آرمی‘ پڑھا۔
آپ لوگوں نے کبوتر کا قصہ تو پڑھا ہی ہو گا جو نارووال سے اڑ کر بھارت میں داخل ہو گیا اور اس کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ لیا گیا۔ ایک بھارتی چینل نے خبروں میں کہا ’اگرچہ پاکستان کرونا وائرس کے شکنجے میں ہے لیکن وہ دہشت گرد اور جاسوس کبوتروں کی گھس بیٹھ سے باز نہیں آ رہا۔‘
ٹاک شوز میں مہمانوں کا ایک دوسرے پر چیخنا، جملے کسنا، مہمانوں کو اشتعال دلانا، پروگرام اینکرز کا واضح طور پر پاکستانی مہمانوں کے مقابلے میں بھارتی مہمانوں کی طرف داری کرنا اور پاکستانی مہمانوں کو ٹوکنا اور بات کرنے کے لیے موقع فراہم نہ کرنا معمول کی بات ہے۔
تو ایسے میں جب پاکستانی صحافیوں کو بولنے کا وقت بھی نہیں دیا جاتا، ان پر چیخا جاتا ہے اور توہین آمیز اور ذاتی نوعیت کے جملے کسے جاتے ہیں تو پاکستانی صحافی ان پروگرامز میں شامل ہی کیوں ہوتے ہیں؟
ایڈووکیٹ، کالم نگار اور حالات حاضرہ کے شریک میزبان اسد رحیم نے حال ہی میں واضح کر دیا کہ وہ ان بھارتی پروگرامز میں جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کو ’ریپبلک ٹی وی‘ پر ارنب گوسوامی کے پروگرام میں بھارت سے دو پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو جاسوسی کے الزام میں ملک بدر کرنے کے موضوع پر بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
اسد رحیم نے نہ صرف اس دعوت کو ٹھکرا دیا بلکہ اپنے جواب کو ایک ٹویٹ کے ذریعے عوام کے سامنے بھی رکھ دیا۔ انہوں نے کہا: ’آپ کی دعوت کا شکریہ۔ اگر میں نے فاشسٹ پاگل کو جنگ کے بارے میں ایک گھنٹے تک چیختے ہوئے سننا ہے، تو میں جوزف گوبل کی پرانی تقریریں سن لوں۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی خاطر، آپ کا چینل جلد بند ہو جائے۔‘
Republic TV's invitation for Arnab Goswami's show tonight, with the response. pic.twitter.com/aJ4IP5Ji16
— Asad Rahim Khan (@AsadRahim) June 1, 2020
یہ تو اسد تھے جو بھارتی پروگرامز کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن وہ جو پروگرامز کا حصہ بنتے ہیں ان کا کیا؟
’بی بی سی اردو‘ کے سابق صحافی اطہر کاظمی ان صحافیوں میں سے ایک ہیں جو تواتر سے بھارتی پروگرامز کا حصہ بنتے ہیں۔ وہ ’ریپبلک ٹی وی‘ پر ارنب گوسوامی کے چند پروگرامز کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ اسی ٹی وی چینل پر میجر گورو آریا کے پروگرام میں ان کو اکثر دیکھا جاتا ہے۔
اطہر کاظمی کے خیال میں پاکستانی صحافیوں کو ’مودی میڈیا‘ کے چینلز پر ضرور جانا چاہیے تاکہ پاکستان کا بیانیہ بیان کیا جاسکے اور ارنب گوسوامی جیسے جنگی جنون میں سرشار بھارتی اینکرز کو کھلا میدان نہ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہاں یہ بات درست ہے کہ پاکستانی صحافیوں یا مہمانوں کو بات کرنے کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے اور جب دیا بھی جاتا ہے تو بیچ میں ٹوک دیا جاتا ہے لیکن ایسے بھارتی صحافیوں کے لیے میدان خالی کیوں چھوڑا جائے۔ کم از کم جو بھی تھوڑا وقت دیا جاتا ہے اس میں میں کامیابی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہوں۔‘
صحافی راجہ فیصل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صرف ارنب گوسوامی کے پروگرام پر آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ ارنب پر ہی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو جواب دینے میں مزہ آتا ہے۔
راجہ فیصل کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستانی صحافی کو بولنے کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے اور اپنی بات دوسروں کو ٹوکے بغیر نہیں کی جاسکتی۔
’ابتدا میں میں اپنے وقت کا انتظار کرتا تھا جو کبھی نہیں ملا۔ چند پروگرامز کے بعد مجھے اپنی بات پہنچانے کا گُر آ گیا اور میں نے دوسروں کو ٹوکنا شروع کر دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خیال میں پاکستان کی بات بھارتی عوام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پروگرامز میں جایا جائے۔
’کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اینکر نے مجھ سے چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اور پاکستان کی خاموشی کے حوالے سے سوال کیا اور میں نے جواب میں کشمیر یا بھارت چین سرحدی کشیدگی پر بات کی۔ یہ موضوع ان کے لیے پرآزار ہے اور وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔‘
بلند آواز میں بولتے اینکرز اور مہمان
مونا عالم ریاستی ٹی وی چینل ’پی ٹی وی‘ پر حالات حاضرہ کے پروگرام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اینکرز اور انڈین مہمان بلند آواز میں بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک پروگرام میں اینکر بہت بلند آواز میں بات کر رہا تھا اور مجھے بار بار آئی ایس آئی کی طوطی کہہ رہا تھا تو مجھے بھی غصہ آ گیا اور میں نے اس کو را کے کھوتے کہنا شروع کر دیا۔ اس دن کے بعد سے وہ اینکر میرے ساتھ صحیح برتاؤ رکھتا ہے۔‘
تاہم مونا کا کہنا ہے کہ بھارتی اینکرز کا برتاؤ اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ پاکستان سے مہمان کون ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برتاؤ کا انحصار کئی باتوں پر ہوتا ہے۔
’ایک تو یہ کہ آیا پاکستان سے مہمان صحافی ہے یا نہیں کیونکہ صحافی جہاں کے بھی ہوں ایک کیمسٹری ہوتی ہے اور ایک دوسرے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے چند ایسے لوگ ہیں جو صحافی نہیں ہیں لیکن ان پروگرامز میں آتے ہیں تو ان کے ساتھ برتاؤ بھی ویسا ہی کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان سے مہمان کو ٹی وی چینل نے مدعو کیا ہے یا مہمان نے اپنے آپ کو خود پیش کیا ہے۔ وہ مہمان جو خود ٹی وی چینل کو کہتے ہیں کہ انہوں نے پروگرام میں آنا ہے تو اس کے ساتھ بھارتی اینکر کا سلوک اچھا نہیں ہوتا۔‘
گورو آریا ہی کے پروگرام میں ایک بھارتی مہمان نے کہا کہ وزیر اعظم ’پاکستان چرس پیتے ہیں‘۔ آریا نے اس مہمان کو ٹوکا اور کہا ’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے ذاتی حملے پسند نہیں ہیں اور آپ نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم چرس پیتے ہیں جبکہ وہ کوکین کا استعمال کرتے ہیں۔‘
اطہر کاظمی کا کہنا ہے کہ پاکستانی مہمان کو اشتعال دلوانا ایک عام سی بات ہے اور ایسے جملوں پر ان کو غصہ نہیں آتا۔ ’جب آریا نے یہ بات کی تو میں اپنی باری میں تحمل سے کہا کہ اس سے تربیت ظاہر ہوتی ہے۔ میں نے عمران خان پر دیے جانے والے ریمارک پر اپنی ناپسندیدگی بھی ظاہر کر دی اور آواز بھی اونچی نہیں کی۔‘
As soon as you start talking about something important, especially something that matters, to restore peace in the region. A bombardment of shouts!
— राजा फ़ैसल (@RajaFaisal01) September 10, 2019
&
At the end, get an #ISI tag.
&#ArnabGoswami wants to rip my ISI uniform, never knew ISI had a uniform #IndiaFailed #Kashmir pic.twitter.com/1ZNLuAbvpp
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بھارتی اینکز اور مہمان چیخ رہے ہوتے ہیں اور توہین آمیز ریمارکس دے رہے ہوتے ہیں تو وہ غصے میں نہیں آتے اور پوری توجہ سے اپنا نقطہ پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ٹی وی اینکر چلا رہی تھیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کی صحت کی بہت فکر ہے آپ کو اتنا نہیں چلانا چاہیے۔ وہ اینکر مسکرانے لگی اور آواز نیچی کر لی۔‘
اطہر کاظمی کے بقول کئی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارتی پروگرام کا پروڈیوسر میرے کان میں کہتا ہے کہ ’سر آپ بھی آواز اونچی کریں اور چیخیں۔‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے اور اب بھارتی اینکرز کو بھی ان کا پتہ چل گیا ہے کہ وہ اونچی آواز میں بات نہیں کرے گا۔
لیکن راجہ فیصل کے مطابق اونچا بولنا اور ذاتی نوعیت کے ریمارکس دینا رینٹنگ حاصل کرنے کے حربے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’سب ریٹنگ کی گیم ہے۔ ایک اینکر نے مجھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ پر پروگرام کرنے سے اچھی ریٹنگ آتی ہے لیکن پاکستانی مہمان کے پروگرام پر ہونے سے ریٹنگ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔‘
راجہ فیصل خود بھی پروگرامز میں اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اور کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ چیخ رہے ہوں۔ تاہم وہ اس کا ذمہ وار بھارت میں ساؤنڈ کنٹرولر کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں ’ساؤنڈ کنٹرول جان بوجھ کر ہماری آواز نیچی رکھتا ہے تاکہ مجھے اونچا بولنا پڑے اور ٹی وی دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہو جیسے میں چیخ رہا ہوں۔ میں نے اس حوالے سے کئی پروگرامز کے درمیان بھی شکایت کی ہے۔‘
یو ٹیوب چینلز
پاکستان میں کئی صحافیوں نے اپنے یو ٹیوب چینلز بنا لیے ہیں اور بڑی تعداد میں مداح یا فالورز ہونے کے باعث وہ یو ٹیوب چینلز سے پیسے بھی کما رہے ہیں۔
چند صحافیوں کا کہنا ہے کہ انڈین ٹی وی چینلز پر آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اپنے فالورز کو بڑھانا اور یو ٹیوب سے رقم بنانا۔
ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا: ’کیا واقعے آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بھارتی چینلز پر جا کر پاکستان کا دفاع کرتے ہیں اور پاکستان کے بیانیے کو بیان کرتے ہیں؟ ان کو مشکل سے بات کرنے کا وقت ملتا ہے اور جب ملتا ہے تو اتنا ٹوکا جاتا ہے کہ بات کی سمجھ ہی نہیں آتی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو ان صحافیوں کے فالورز میں اس وقت سے نمایاں اضافہ ہوا ہے جب سے وہ بھارتی ٹی وی چینلز پر آنا شروع ہوئے ہیں۔
اطہر کاظمی بھی اپنا ایک یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں جس پر وہ اینکر گورو آریا سمیت دیگر بھارتی مہمانوں کو مدعو کرتے ہیں۔ ’میں ایک صحافی ہوں اور اس وقت کسی میڈیا ہاؤس کے ساتھ منسلک نہیں ہوں۔ میں نے یو ٹیوب کے پلیٹ فارم کو تفصیلی اور معنی خیز بحث کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں غلط کیا ہے؟‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک چھوٹی مارکیٹ ہے۔ ’آپ جتنے بھی اچھے کیوں نا ہوں آپ کے لیے مارکیٹ چھوٹی ہی رہنی ہے۔ تو میں نے بھارتی مارکیٹ میں قدم رکھا اور اب میرے فالورز پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا میں بھی ہیں۔‘