زیادہ پرانی بات نہیں! 08-2007 میں جب سابق قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندی اور دہشت گردی عروج پر تھی تو ان دنوں ضلع ہنگو میں مقامی پولیس نے نواحی علاقے بگٹو سے تعلق رکھنے والے ایک 21 سالہ نوجوان شاکر اللہ کو کسی جرم میں گرفتار کرلیا۔
ملزم کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا لیکن شاید دوران تفتیش حوالات میں ان کی طرف سے پولیس سے بے تمیزی کی گئی جس کے جواب میں اہلکاروں نے نہ صرف ان پر وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان کے کپڑے تک پھاڑ دیے گئے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مار پیٹ کے دوران ملزم کو بے آبرو کرکے ان سے وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے بدفعلی کی۔ یہ واقعہ عبدالعلی چیک پوسٹ جوزارہ میں رات کے وقت ایس ایچ او کی موجودگی میں پیش آیا۔
ملزم کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ دوران حراست ہی نوجوان شاکر اللہ نے دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ رہا ہونے کے بعد ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوگا کہ کسی طریقے سے وہ پولیس اہلکاروں سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا اور موبائل فون زیادہ عام نہیں تھے ورنہ شاید پولیس اہلکار ملزم سے ہونے والی بدفعلی کے ویڈیو کلپ بھی بنالیتے اور بووقت ضرورت اپنا کارنامہ عوام کو دکھادیتے۔
تاہم کچھ عرصے کے بعد نوجوان شاکر اللہ جب آزاد ہوا تو اس وقت اس کی حالت ایسی تھی جیسے انتقام کی آگ میں جل رہا ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ جیل سے رہا ہوتے ہی انہوں نے چند ساتھیوں پر مشتمل ایک مسلح گروپ بنالیا اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت اختیار کرلی۔ بعد میں شاکر اللہ اور ان کے گروپ کے ساتھیوں کا مقصد صرف اور صرف پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا تھا اور جہاں بھی طالبان جنگجو پولیس کے خلاف کاروائی کرنے جاتے یہ سب سے پہلے فرنٹ لائن میں پہنچ جاتے تھے۔
مـختلف ذرائع سے لی گئی مصدقہ معلومات کے مطابق شاکر اللہ کا گروپ اب تک چھ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرچکا ہے تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے حملوں میں دس اہلکار مارے گئے ہیں۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ قانون کے رکھوالے جب خود بربریت اور تشدد پر اتر آتے ہیں تو اس سے نہ صرف عام نوجوان مجرم بن جاتے ہیں بلکہ اس سے معاشرے میں تشدد بھی جنم لیتا ہے۔
شاکر اللہ کے ساتھ ہونے والی بدفعلی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ پولیس تھانوں میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جہاں ظلم اور تشدد کی نئی نئی مثالیں قائم کی جاتی ہیں۔
ایک ایسا ہی واقعہ گذشتہ روز پشاور میں بھی پیش آیا جہاں 'مثالی' پولیس کا دعویٰ کرنے والے اہلکاروں نے پشتون روایات اور اصولوں کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے محض بدزبانی کرنے کی پاداش میں ایک شہری پر نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان کی برہنہ ویڈیو بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور کے علاقے تہکال کے رہائشی رفیع اللہ عرف عامر نے چند قبل دن نشے کی حالت میں ایک ویڈیو کلپ بنائی تھی جس میں وہ پولیس افسران کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نظر آئے، بعد میں یہ ویڈیو کلپ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی جاری کردی گئی، جس پر محکمہ پولیس میں شدید اشتعال پایا جاتا تھا۔
پشاور پولیس نے ویڈیو جاری کرنے کے جرم میں کارروائی کرتے ہوئے ملزم رفیع اللہ کو گرفتار کرلیا اور بعد میں ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔ اس دوران پولیس نے زیر حراست ملزم کی ایک ویڈیو بھی بنائی جس میں رفیع اللہ عرف عامر معافیاں طلب کرتے اور اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ملزم کی طرف سے معافی کے بعد اصولی طور پر یہ معاملہ یہاں پر ختم کیا جانا چاہیے تھا لیکن شاید ایک مخصوص 'ذہنیت' رکھنے والے افسران اور اہلکاروں کو معافی پر بھی چین نہیں آیا اور ان کی طرف سے دوران حراست ملزم کی دو مزید ویڈیوز بنائی گئیں، جن میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کی گئیں۔
پولیس کی طرف سے جاری کی گئی ان ویڈیو کلپس میں ملزم تھانے کے اندر برہنہ حالت میں دکھائی دیتا ہے اور پولیس اہلکاروں سے روتے ہوئے منت سماجت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ویڈیو میں ملزم پولیس اہلکاروں کے کہنے پر خود کو گالیاں بھی دیتا ہے۔
پولیس کی طرف سے یکے بعد دیگرے جاری ہونے والی ان ویڈیوز سے بظاہر لگتا ہے کہ اس معاملے میں صرف نچلے رینک کے اہلکار ملوث نہیں بلکہ ان میں سینئیر افسران بھی آن بورڈ تھے اور ان کی مرضی سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔
اس واقعے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ خیبر پختونحوا میں پولیس والوں پر پیسے لینے اور تھانوں کے اندر مارپیٹ کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن کبھی اس طرح نہیں ہوا کہ ایک ملزم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ ان کی نیم برہنہ ویڈیو بھی بنائی جائے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کردیا جائے۔ اس سے محکمہ پولیس میں ایک مخصوص تشدد پسندانہ سوچ کی عکاسی بھی ہوتی ہے جو نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔
ماضی میں لوگ شدت پسندوں کی سوچ کی مذمت کرکے ان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے، ان پر بھی وحشیانہ اور غیر انسانی رویے کے الزامات لگائے جاتے تھے، لیکن اگر ایک ذمہ دار اور پیشہ وار ادارے میں بھی ایسے اثرات نظر آئیں تو پھر فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔