فرانس کے امدادی بحری جہاز 'اوشن وائیکنگ' کے عرشے پر موجود پاکستانی شہریوں کا ایک گروپ اپنے پیچھے لیبیا کے ساحل کو دور ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بحیرہ روم میں موجود بحری جہاز نے ان افراد کو جمعرات کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔
لیبیا کے ساحل کے ساتھ ہی اغوا، تشدد اور بدسلوکی کے وہ ڈراؤنے خواب بھی پیچھے رہ گئے تھے، جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا تھا۔ تارکین وطن کے 51 افراد کے گروپ میں شامل 31 پاکستانیوں میں سے ایک عمران نے کہا: 'ہم ان کے لیے انسان نہیں ہیں۔'
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لکڑی سے بنی کشتی کو جمعرات کو اطالوی جزیرے لیمپ ڈوسا سے کچھ دور بحیرہ روم میں ایس او ایس ایمبولینس بوٹ نے ریسکیو کرتے ہوئے ڈوبنے سے بچایا تھا۔
تعمیراتی شعبے سے وابستہ 30 سالہ مستری عمران کے مطابق کشتی پر موجود تمام پاکستانی لیبیا کے سفر کے دوران قید کیے گئے تھے۔ عمران لیبیا سے نکلنے سے پہلے ایک سال تک وہاں پھنسے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سب کو مغوی بنایا گیا تھا۔ بقول عمران: 'وہ کام کی تلاش میں آئے تھے لیکن انہیں جنگ، تشدد اور بھتہ وصولی کے سوا کچھ نہیں ملا۔'
عمران کہتے ہیں: 'سیاہ فاموں کے لیے تقریباً وہی صورت حال ہے جو ہمارے لیے ہے لیکن بنگلہ دیشی اور پاکستانی شہری ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔'
عمران کی طرح وہ تمام لوگ جو مزدوری کے لیے براستہ دبئی لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچے تھے، ان سب نے مارپیٹ اور اغوا کی کہانیاں سنائیں۔
عمران نے بتایا کہ انہیں فروخت کر دیا گیا اور خریدنے والے نے انہیں قید کر دیا۔ 'ایک کمرے میں 35 سے 40 افراد کو ٹھونس دیا گیا تھا۔ ہمیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ خریدنے والے نے انہیں دوبارہ کسی کو فروخت کر دیا اور اس شخص نے بھی انہیں قید میں رکھا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک غلام بن چکے تھے۔
ایک اور پاکستانی نعیم نے بتایا: 'وہ ہمیں کھانے کے لیے صرف اتنا دیتے تھے کہ ہم زندہ رہ سکیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ملتا تھا۔'
35 سالہ نعیم بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن پولیس کے پاس جانے کی غلطی کر بیٹھے۔
انہوں نے بتایا: 'پولیس مجھے پکڑ کر واپس اغواکاروں کے پاس لے گئی۔ صورت حال بہت خراب تھی۔ لیبیا میں کسی نے ہماری مدد نہیں کی۔ مجھے پورے ملک میں ایک بھی اچھا آدمی نہیں ملا۔'
'وہ آپ کو کہیں بھی پکڑ سکتے ہیں'
محمد ارشد نے نیلے رنگ کی روایتی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ انہوں نے خمس کے ساحلی شہر میں گزرے دو برسوں اور تاوان کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'وہ گروپوں کی شکل میں آتے ہیں۔ وہ آپ کو کام پر یا سڑک پر کہیں بھی پکڑ سکتے ہیں، جس کے بعد آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ وہ آپ کو مارتے ہیں اور آپ کے والدین کو فون کرکے تاوان طلب کرتے ہیں، دوسری صورت میں قتل کی دھمکی دیتے ہیں۔'
ارشد نے مزید بتایا کہ ان کے والد کو رشتہ داروں سے ادھار لے کر 10 ہزار ڈالر کا انتظام کرنا پڑا جو پاکستان میں ایک بڑی رقم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جذبات سے عاری 24 سالہ ارسلان نے بتایا کہ تاوان کی رقم کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں وہ ہمیں رائفل کے بٹ مارتے تھے۔ ارسلان کی بڑی داڑھی حفاظتی ماسک سے باہر نکلی ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا: 'بجلی کے جھٹکے بھی لگائے جاتے ہیں یا کئی دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے۔ پیاس کی صورت میں غلیظ پانی دیا جاتا ہے۔ مجھے جس تشدد اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔'
پاکستانیوں کے لیے اتنی بڑی تعداد میں لیبیا سے روانگی غیرمعمولی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے مطابق پاکستانی سرحد پار کرنے والے شہریوں کے اعتبار سے پہلے 10 ملکوں میں بھی نہیں آتے۔ اس فہرست میں پہلےنمبر پر سوڈان اور اس کے بعد بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔
ارسلان احمد صرف چھ یا سات ماہ سے لیبیا میں تھے۔ تب انہوں نے زوارا سے کشتی میں سوار ہو کر جان داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ طویل خاموشی کے بعد دھیمی آواز میں انہوں نے کہا: 'بحیرہ روم میں ہم ایک بار مرتے ہیں لیکن لیبیا میں ہر روز مرنا پڑتا ہے۔'
تارکین وطن کے مطابق انہوں نے ملک سے نکلنے کے لیے ٹکٹ کی خاطر 'زیادہ سے زیادہ' دو ہزار ڈالر دیے۔
نعیم کا کہنا تھا: 'ہم نے جان بوجھ کر کشتی لی کیونکہ ہم پہلے ہی موت کو قریب سے دیکھ چکے تھے۔ لیبیا میں قیام کے مقابلے میں خطرناک سمندر میں ڈوبنا بہتر ہے۔'
نعیم کے خیال میں امدادی بحری جہاز اوشن وائیکنگ کی جانب سے انہیں بچا لینا یورپ میں دوسری زندگی دینے کے مترادف ہے۔
40 سالہ مدثر غالب نے کہا: 'یہ میرے لیے زندگی کی سب سے بڑی خوشی کا دن ہے۔'
تمام تارکین وطن تصدیق چاہتے ہیں کہ جہاز انہیں واپس لیبیا نہیں لے جائے گا۔ اس یقین دہانی پر وہ مالٹا، اٹلی یا فرانس میں دوسری زندگی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ عمران نے کہا: 'حقیقت میں اس کی اہمیت نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یورپ میں کوئی ہمیں تشدد کا نشانہ نہیں بنائے گا۔'