کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ہلاک ہونے والے شہری بشیر احمد خان کے افراد خانہ کا بیان 'بے بنیاد' قرار دیا ہے۔
پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہلاک ہونے والے شہری کے جس بیٹے نے ویڈیو بیان دیا ہے وہ سوپور میں نہیں تھے۔ ان کو کسی عسکریت پسند نے ایسا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے یہ بیان عسکریت پسندوں کے دباؤ میں آکر دیا ہے۔'
پریس کانفرنس میں انہوں نے مزید کہا کہ 'سری نگر میں بیٹھے انہیں کیسے پتہ کہ سی آر پی ایف نے ان کے والد کو گاڑی سے باہر نکال کر مار ڈالا؟ اگر واقعے کا کوئی عینی شاہد ہے تو میں اس سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ سامنے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی آر پی ایف اور پولیس نے اس بچے کو بچایا ہے۔'
آئی جی پولیس نے کہا کہ سوپور میں سی آر پی ایف کی ناکہ پارٹی پر فائرنگ ایک مسجد کے اندر سے کی گئی اور اس میں بقول ان کے عسکری تنظیم لشکر طیبہ سے وابستہ 'ایک پاکستانی اور ایک مقامی جنگجو ملوث ہیں۔'
'معمول کی طرح بدھ کی صبح سی آر پی ایف اہلکار ماڈل ٹاون سوپور میں ناکہ لگانے کے لیے پہنچے۔ سی آر پی ایف اہلکار گاڑی سے نیچے اتر ہی رہے تھے کہ مسجد کے اندر سے اندھا دھند فائرنگ شروع ہوئی جس میں سی آر پی ایف کے ایک جوان ہلاک جب کہ تین دیگر زخمی ہوئے۔'
'وہاں سے کار میں ایک 65 سالہ شہری بشیر احمد جارہے تھے۔ ان کی گاڑی میں ایک چھوٹا بچہ تھا۔ وہ گھبرا کر گاڑی سے نیچے اتر آئے اور بچے کو لیکر محفوظ جگہ کی جانب بھاگنے لگے۔ ان کو بھی ایک گولی لگی جس کی وجہ سے وہ انتقال کرگئے۔'
واقعے کا پس منظر
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی ضلع بارہ مولہ کے ماڈل ٹاؤن سوپور میں بدھ کی صبح بھارتی نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف)کے اہلکاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک راہ چلتا عام شہری مارا گیا، جبکہ ان کا تین سالہ نواسہ معجزاتی طور پر بچ گیا۔
دو طرفہ فائرنگ سے قبل عسکریت پسندوں کی طرف سے سی آر پی ایف کی ایک ناکہ پارٹی پر کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں سی آر پی ایف کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہوا جبکہ دیگر تین زخمی ہوگئے۔
بدھ کی صبح قریب ساڑھے آٹھ بجے سوپور میں عسکریت پسندوں کے سی آر پی ایف کی ایک ناکہ پارٹی پر اس حملے کی اطلاع ملتے ہی کشمیر پولیس کے اہلکار اور مقامی صحافی جائے وقوع پر پہنچے جہاں انہوں نے دل دہلانے والا منظر دیکھا۔
ایک مقامی صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم جب جائے وقوع پر پہنچے تو ہم نے ایک شخص کی خون میں لت پت لاش سڑک کے کنارے دیکھی اور ایک چھوٹے بچے کو اس کے سینے پر بیٹھے روتے بلکتے ہوئے دیکھا۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'پولیس کے ایک اہلکار نے مذکورہ بچے، جس کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا، کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر پولیس کی ایک چھوٹی گاڑی میں ڈال کر محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی آر پی ایف کے ترجمان جنید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ماڈل ٹاؤن سوپور میں بدھ کی صبح عسکریت پسندوں نے 179 بٹالین سی آر پی ایف کی ایک ناکہ پارٹی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس میں ہمارا ایک جوان مارا گیا جبکہ دیگر تین زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لیے سری نگر میں قائم فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔'
سی آر پی ایف کے دوسرے ایک ترجمان پنکج سنگھ سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ عام شہری کی ہلاکت کیسے واقع ہوئی تو ان کا کہنا تھا: 'میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے۔ آپ کراس فائرنگ لکھ سکتے ہیں'۔
فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت سری نگر کے مضافاتی علاقے مصطفیٰ کالونی ایچ ایم ٹی کے رہنے والے بشیر احمد خان ولد غلام محمد خان کے نام سے ہوئی ہے۔
مذکورہ شہری کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بشیر احمد عسکریت پسندوں کی نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
ایچ ایم ٹی سے ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہمیں اہل خانہ سے معلوم ہوا کہ بشیر احمد پیشے کے اعتبار سے ایک ٹھیکے دار تھے۔ وہ اپنے تین سالہ نواسے عیاد جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر سوپور میں تعمیراتی سائٹ پر جارہے تھے۔ اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کو سکیورٹی فورسز نے قتل کیا ہے۔'
ایک ویڈیو میں بشیر احمد کے ایک بیٹے کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے: 'وہ صبح چھ بجے گھر سے نکلے۔ ان کا سوپور میں کام چل رہا تھا۔ وہاں فائرنگ شروع ہوئی اور سی آر پی ایف نے ان کو گاڑی سے اتار کر مار ڈالا'۔
اس واقعے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور لوگوں کی جانب سے تبصروں میں بھارتی سکیورٹی فورسز پر تنقید کی جارہی ہے۔
دوسری جانب سوپور پولیس نے سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں عام شہری کے قتل کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں سوپور پولیس نے لکھا: ' سوشل میڈیا ویب سائٹس پر (پولیس کی جانب سے) ایک عام شہری کو ہلاک کیے جانے کی خبریں مکمل طور پر بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔ سوپور پولیس ان رپورٹس کو مسترد کرتی ہے اور غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔'
The news surfaced on some social networking sites that the civilian was brought down and killed is totally baseless and is far beyond the facts, Sopore Police refutes and denies the news and legal action shall be initiated against the false reports and rumours @KashmirPolice
— Sopore Police (@SoporePolice) July 1, 2020