سابق فاٹا جس میں سیاہ کہلوایا جانے والا 40 ایف سی آر قانون نافذ تھا۔ لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ طلبہ اس کے لیے احتجاج کر رہے تھے ہر فورم پر آواز اٹھا رہے تھے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے تاکہ ہمیں بھی وہ حقوق ملیں جو باقی لوگوں کو حاصل ہیں۔
ان کے خیال میں فاٹا کی پسماندگی کی وجوہات شاید 40 ایف سی آر اور علاقہ غیر تھیں۔ ان طلبا نے اس مقصد کے لیے قبائلی علاقوں کے لوگوں کی رائے جاننے کے لیے فوکس گروپ ڈسکشن منعقد کیں لیکن چونکہ سابق فاٹا میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے لہذا یہ فوکس گروپ بھی خیبر پختونخوا میں ہی کروانے پڑے۔
انضمام کے بعد ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن یہ خوشی مختصر مدت کے لیے تھی۔ لوگوں میں مایوسی پھیلتی گئی۔ وہ حکومت کے بڑے بڑے اعلانات اور دعوے جو ان کو مختلف پلیٹ فارم پر دیکھنے اور سننے کو ملتے تھے وہ صرف اعلانات فوٹو سیشن، میڈیا کوریج اور تالیوں اور واہ واہ تک ہی محدود رہے۔گراونڈ پر کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
رہی سہی امید اس وقت ختم ہوتے دکھائی دی جب کرونا کی وجہ سے زندگی کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے آن لائن کلاسسز کا اعلان کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبائلی اضلاع کے طلبا جوکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں وہ یہ کلاسسز کیسے لیں؟ جن کے اضلاع میں موبائل سروس صحیح کام نہ کرتی ہو وہاں پر نیٹ 3G اور 4G اور آن لائن کلاسسز کیسے لی جائیں ۔یہ خبر جہاں ملک کے دیگر علاقوں کے طلبا کے لیے خوش آئند تھی وہاں پر یہ سابق فاٹا کے لیے اچھی نہ تھی۔
اس حوالے سے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں طلبا نے احتجاج کرنا شروع کیا۔ وانا سے تعلق رکھنے والے گومل یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن کے طالب علم معراج وزیر کا کہنا ہے کہ وانا میں اور اس طرح دوسرے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے تعلیمی سال ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ ’وانا میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا موجود ہیں جو اس احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم پچھلے تین ماہ سے احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں مگر ابھی تک ہمارے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غوروعوض نہیں کیا گیا ہے۔‘
اس طرح عابد محسود کا جو کہ آن لائن کلاسسز کے لیے احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں کہنا ہے کہ ان کا تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے اور حکومت خیبرپختونخوا مکمل خاموش ہے۔
یونیورسٹی کے طالب علم سلیم داوڑ کا جن کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر اس معاملے کو اٹھایا ہوا ہے مگر صوبائی اور وفاقی حکومت کے کان پر جو تک نہیں رینگتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں میڈیا کے بڑے بڑے چینلز پر، سوشل میڈیا پر، قبائلی اضلاع کے مختلف پریس کلبز کے سامنے اسلام آباد میں طلبا نے اس حوالے سے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں مگر حکومت کی طرف سے شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
حکومت کو پہلے بھی ان اضلاع سے ماضی کی لاپرواہی کی وجہ سے امن امان کو کنٹرول کرنے میں چیلنجز کا سامنا رہا ہے اگر طلبا کے جو کہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں مطالبات نہ مانے گئے تو شاید امن وامان کو قائم کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔
وانا کے موسی نیکہ پبلک ہائی سکول کے سامنے مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ سٹوڈنٹس کا کہنا تھا کہ موسی نیکہ میں وائی فائی کا رینج بہت سست ہے جس کی وجہ سے آن لائن کلاسزز لینا انتہائی مشکل ہے۔
طلبہ نے ضلعی انتظامیہ سے تین مطالبات کیئے کہ موسی نیکہ میں لگی ہوئی وائی فائی کی رینج کو بڑھائیں، اگر یہ نہیں کرسکتے تو اس کو واپس اپنی آفس میں رکھ دیں۔ ’اگر یہ بھی آپ سے ممکن نہیں تو ہمیں تحریری فارم میں یہ دے دیں کہ آپ کو ہمیں سہولت نہیں دے سکتے تاکہ ہم اپنے ٹیچرز کو بھیج سکیں کہ ہمارے پاس سہولت نہیں ہے۔
اسی طرح جنوبی وزیرستان محسود علاقے سام میں بھی فوج نے طلبہ کے لیے نیٹ کی سہولت دی ہے مگر وہاں پر بھی ان کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ صرف حاضری لگاتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔