قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ کے ساتھ کوئی سیاسی مسئلہ یا پوائنٹ سکورنگ نہیں ہے مگر انہیں حقائق سامنے لانا آتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں چیئرمین این ڈی ایم اے نے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر سامان کی تریسل کے حوالے سے صوبہ سندھ کے تحفظات پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ سندھ کے ساتھ کوئی سیاسی مسئلہ ہے یا پوائنٹ سکورنگ ہے مگر مجھے حقائق کو سامنے لانا آتا ہے اور حقائق یہ ہیں کہ ایک ایک مرتبہ 57 ہزار ٹیسٹنگ کٹس بطور عطیہ آئیں جس پر سندھ نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے لیے آئی ہیں۔‘
اب تک کرونا وائرس سے نمٹنے میں این ڈی ایم اے ایک اہم کردار رہا ہے۔ کرونا وائرس ٹیسٹنگ کے لیے کٹس، ہسپتالوں کے لیے وینٹی لیٹرز، کرونا کے لیے ہسپتالوں کا قیام اور ڈاکٹروں اور عام عوام کے لیے حفاظتی کٹس (ماسک، سوٹ وغیرہ) کی فراہمی تمام تر این ڈی ایم ای ہی کی ذمہ داری ہے۔
ان تمام اشیا کی درآمد اور صوبوں میں ترسیل بھی این ڈی ایم اے ہی کا کام ہے۔
سندھ کے کرونا سامان کی ترسیل پر تحفظات
جنرل افضل سے سندھ کے کرونا سامان کی تفصیل کے حوالے سے تحفظات پر سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ عطیات کو وفاق کی سطح پر لیتے ہیں اور تمام آئینی اکائیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
’سندھ کو کہا گیا تھا کہ وہ ان کٹس کا بیشتر حصہ (20 ہزار کٹیں) رکھ سکتے ہیں اور باقی دوسروں کو دے دیں جو کہ بھیج دی گئیں۔ بدقسمتی سے کچھ دنوں کے بعد کہا گیا کہ یہ کٹیں خراب ہیں۔‘
جنرل افضل کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ کٹیں وہاں سے واپس منگوا لیں اور سندھ کو دوسری کٹیں دے دی گئیں۔ ان کے بقول ان کٹوں کو بعد میں قومی ادارہ صحت نے استعمال کیا اور وہ تمام کی تمام استعمال ہو گئیں۔
صوبہ سندھ ہی کے حوالے سے چیئرمین این ڈی ایم اے نے مزید کہا کہ ’مجھے سندھ سے ایک ہسپتال نے کہا کہ آپ نے ہمیں 50 ہزار کٹیں دی تھیں جو کہ ٹھیک کام نہیں کر رہی ہیں اور آپ یہ واپس لے کر ہمیں نئی کٹیں دے دیں۔‘
’جب ہم کٹیں دیتے ہیں تو وہ خشک برف میں ڈال کر دیتے ہیں کیوں کہ کٹوں کو منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا چاہیے۔ وہاں پر کسی نے یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ ان کو ایسی جگہ پر رکھنا ہے جہاں پر درجہ حرارت ٹھیک ہو۔ تو جب وہ کٹیں لے کر آئے تو ہم نے جو خشک برف میں رکھ کر دی تھیں وہ بھی مائع ہو چکیں تھیں۔ درجہ حرارت میں تبدیلیوں کی وجہ سے وہ کٹیں خراب ہو چکیں تھیں۔‘
لیفٹننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا تھا کہ سندھ میں آکسیجن سے لیس پانچ سو بیڈوں پر مشتمل ہسپتال بنانا چاہ رہے ہیں۔ ’ہم پہلے ہی وہاں 72 وینٹی لیٹر اور 100 بائی پیپ پہنچا چکے ہیں۔‘
سندھ کے ساتھ اختلافات کی وجہ پر ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ کے ساتھ کوئی سیاسی تناؤ نہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری میرے ذاتی دوست ہیں۔ سندھ کی کابینہ میں بھی دوست ہیں۔‘
’کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بات ہوتی ہے جسے وہاں (این سی او سی) پر بتانا ضروری ہوتا ہے۔ وہ چیزیں بتاتے ہوئے کچھ آپ لوگ (میڈیا) بھی دوسرے طریقے سے لے جاتے ہیں اور دیکھنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ٹسل چل رہی ہے۔۔۔۔۔ سندھ صوبہ ہے جہاں ہمارا ایک بڑا فعال ویئر ہاؤس ہے۔۔۔۔ ہم ان کے ساتھ ہیں اور بطور وفاقی حکومت ہم ان کی معاونت کریں گے۔‘
’جہاں تک وفاق کا تعلق ہے تو وفاق کی طرف سے اس حوالے سے کوئی سیاست نہیں ہو رہی۔ مجھے ایک دن بھی یہ ہدایات نہیں دی گئیں کہ آپ سندھ کو یہ چیز کم دیں بلکہ کافی مرتبہ سندھ کو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے زیادہ سامان ملا ہے۔‘
کرونا سامان کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولہ
چونکہ ہسپتالوں کے لیے وینٹی لیٹرز، کرونا کے لیے ہسپتالوں کا قیام اور ڈاکٹروں اور عام عوام کے لیے حفاظتی کٹس وغیرہ کی صوبوں میں ترسیل این ڈی ایم اے ہی کی دمہ داری ہے اس لیے ہم نے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل سے یہ جاننا چاہا کہ صوبوں میں کرونا وائرس کے سامان کی ترسیل کسی فارمولہ کے تحت ہوتی ہے یا طلب کے مطابق؟
جس پر انہوں نے کہا کہ یہ تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہوتی ہے۔ نجی ہسپتالوں اور ایسے ہسپتالوں میں یہ سامان نہیں جاتا جہاں کرونا وائرس کے مریض نہیں ہوتے بلکہ صرف ان ہسپتالوں میں سامان جاتا ہے جہاں کرونا وائرس کے مریض ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرونا سے نمٹنے میں پاکستان آرمی کے اقدامات
جنرل افضل سے پوچھا گیا کہ پاکستان آرمی کرونا سے نمٹنے کے لیے کیا عملی اقدامات کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں یونیفارم میں سویلین ادارے کا سربراہ ہوں۔ اگرچہ اس ادارے کے 40 فیصد سٹاف کا تعلق پاکستان فوج سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں آج یہ وثوق سے کہتا ہوں کہ فوجی افرادی قوت ہونے کا فائدہ ہے کیونکہ بہت سارے ایسے کام ہیں جن کے لیے ہماری سویلین بھائی تربیت یافتہ نہیں۔‘
’کرونا کے اندر فوج نے بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ 18ویں ترمیم کی وجہ سے ہمیں ڈیٹا کے، رابطہ کاری کے اور بات چیت کے بڑے مسائل تھے۔ یہ پاکستان آرمی تھی جس نے صوبوں کو بھی ساتھ لیا، اسلام آباد میں بھی ایک سینٹر بنایا۔ شروع میں تکلیفیں بھی بہت ہوئی ہیں۔ ہم انہیں درخواستیں کر کر کے کام کرتے تھے۔ اصل میں انہوں (فوج) نے ہی نظام کو یکجا کیا اور سب کو ایک ٹیم بنایا۔ ابھی ڈیٹا کے حوالے سے دائمی مسائل ختم ہو گئے ہیں۔ اب جو بھی معلومات منگوانی ہوتی ہیں یا بھجوانی ہوتی ہیں وہ باآسانی چلی جاتی ہیں۔‘
’آغاز میں ہسپتالوں میں سامان کی ترسیل کا تجربہ بہت اچھا نہیں تھا۔ جو پہلی کھیپ ہم نے بھیجی تھی، ایک تو اس وقت سامان کی دستیابی نہیں تھی تو جاتے ہی سب نے کوشش کی کہ ان کو مل جائے۔ تو وہ اس وجہ سے بھی کمی ہو گئی لیکن میرے خیال میں جہاں پر سامان کو پہنچنا چاہیے تھا پہنچ نہیں سکا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پھر میری درخواست پر آرمی چیف نے مقامی کوروں کو کہا اور اب سامان وہ ہسپتالوں تک پہنچا کر آتے ہیں۔‘
چیئرمین این ڈی ایم اے کا مزید کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے کوئی بڑا ادارہ نہیں ہے، اس میں صرف 150 افراد کام کرتے ہیں۔
’میرے لیے زمین پر جو اہلکار کام کر رہے ہیں وہ فوج کے ہی اہلکار ہیں۔ جب میں کام کر رہا ہوتا ہوں تو وہی اہلکار میرے کان اور آنکھ کا کام کرتے ہیں۔ میں ان کا شکر گزار بھی ہوں اور میرا ان پر حق بھی تھا لیکن حق سے زیادہ انہوں نے میرا حق ادا کیا ہے کیوں کہ زمین پر جو بھی کرنے والے کام تھے وہ انہوں نے ہی کیے۔‘