دنیا میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں گوگل، ایمزون اور مائیکرو سافٹ نے امریکی حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سےمعاہدے کر رکھے ہیں، جو اس سے پہلے رپورٹ نہیں ہوئے۔
غیرمنافع بخش تنظیم ٹیک انکوائری کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان کمپنیوں کے محکمہ دفاع، امیگریشن، کسٹمز انفورسمنٹ، ایف بی آئی، ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی اور فیڈرل بیورو آف پرزنز کے ساتھ ہزاروں معاہدے ہیں۔
یہ انکشاف اس وقت ہوا جب ' بلیک لائیوز میٹر' تحریک کے تحت ملک بھر میں جاری مظاہروں کے دوران گوگل اور مائیکرو سافٹ کے ملازم اپنے افسروں سے کارروائی کرنے اورپولیس قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔
گذشتہ پانچ برس میں ہونے والے تین کروڑ سرکاری معاہدوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ ان بڑی کمپنیوں میں سے بہت سی ذیلی معاہدوں کو حکومتی درخواستوں پر عمل کے لیے استعال کرتی ہیں۔
ٹیک انکوائری کے جیک پولسن نے امریکی ٹیلی ویژن چینل این بی سی کو بتایا: 'اکثراوقات ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان بالائی سطح کے معاہدے کا تعارف بڑا معمولی اور غیر دلچسپ دکھائی دیتا ہےلیکن صرف اس صورت میں کہ آپ معاہدے کی تفصیل میں جائیں جو آپ صرف معلومات تک رسائی (ایکٹ) کی درخواستوں کے ذریعے کر سکتے ہیں تو، آپ دیکھتے ہیں کہ ہر ٹیکنالوجی کمپنی نے حقیقت میں اسے اپنی ضرورت کے مطابق بنانے کےلیے کس طرح کام کر رکھا ہو گا۔'
مائیکرو سافٹ نے مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہزاروں ذیلی معاہدے جب کہ ایمزون اور گوگل نے سینکڑوں معاہدے کیے ہوئے ہیں۔
ان معاہدوں میں سے متعدد کا تعلق ڈیٹا کو آن لائن محفوظ بنانے کی سہولت کلاؤڈ سٹوریج سے ہے جیسا کہ ایمزون ویب سروسز یا مائیکرو سافٹ ایزیور اور ڈیٹابیس، ایپلی کیشن سپورٹ اور انتظامی خدمات۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال میں یہ بڑی کمپنیاں دنیا میں نگرانی کرنے والی سب سے زیادہ متنازع 10 کمپنیوں کو'لازمی ویب خدمات'فراہم کرتی ہوئی پائی گئیں۔ ان میں سے آٹھ کمپنیوں کوامریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی وجہ بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔
ٹیلی ویژن چینل این بی سی کو جاری کیے گیے ایک بیان میں گوگل کے ترجمان ٹیڈلیڈ نے کہا کہ کمپنی کو وفاقی اداروں کے ساتھ مل کرکام کرنے پرفخر ہے۔ 'ہم نے حکومت کے ساتھ ان منصوبوں میں شراکت داری کا عزم کر رکھا ہے جو سروس کی شرائط، قابل قبول استعمال کی پالیسیوں اور مصنوعی ذہانت کے اصولوں پر پورے اترتے ہیں۔'
گوگل کے مصنوعی ذہانت کے اصولوں کو 2018 میں اس وقت پرکھا گیا تھا جب کمپنی نے ممکنہ طور پر ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی مصنوعی ذہانت تیار کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ پابندی کمپنی کے متعدد ملازمین کےاستعفے کے بعد لگائی گئی۔
انہوں نے گوگل کے امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ ایسے سافٹ ویئر کے معاہدے پراستعفے دیے جو ڈرون کی بنائی ہوئی ویڈیوز کا تجزیہ کرنے میں مدد کر سکتا تھا۔ 'پراجیکٹ میون' نامی اس منصوبے میں گوگل کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس کی بجائے ای سی ایس نام کے دفاعی ٹھیکے دار کے ذریعے اس کا سب کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔
پولسن کہتے ہیں کہ یہ تعاون صرف ایک ملازم کے خبردار کرنے اور تحقیقی صحافت کی بدولت سامنے سامنے آیا۔ دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے مائیکرو سافٹ اور ایمزون سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent