لاہور میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران دو بچیاں جسمانی تشدد کا شکار ہوئیں۔
آٹھ سالہ ثنا جو لاہور کے واپڈا ٹاؤن میں حماد رضا نامی شخص کے ہاں ملازمہ تھیں اور دوسری چار سالہ مہک جنہیں ان کے والد بچے زیادہ اور وسائل کم ہونے کی وجہ سے پال نہیں سکتے تھے تو انہیں ان کی پھپو کو سونپ دیا گیا۔
ثنا پرہونے والے جسمانی تشدد کی اطلاع ہمسایوں نے چائلڈ پروٹیکش اینڈ ویلفئیر بیورو کی چائلڈ ہیلپ لائن 1121 پر دی۔
چائلد ویلفئیر بیورو کی چئیر پرسن سارہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ثنا 7 ماہ سے پانچ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پرحماد رضا کے ہاں ملازمت کر رہی تھیں۔ بچی کے ہاتھ پاؤں اور بازوپر تازہ زخموں کے نشان تھے جبکہ ان کی گردن اور پیٹھ پر جلائے جانے کے نشانات بھی موجود تھے۔
بچی پر حماد کے بچوں کا دودھ چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی سزا انہیں بہیمانہ تشدد کی شکل میں دی گئی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ خود بھی صرف آٹھ برس کی ایک چھوٹی بچی ہے۔ بچی کو سزا کے طورپر کئی روز بھوکا بھی رکھا گیا تھا۔'
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو نے بچی کو اپنی تحویل میں لے کر چائلڈ پروٹیکشن کورٹ میں پیش کیا اور ان کا میڈیکل بھی کروایا جبکہ حماد رضا کے خلاف ایف آئی آر تھانہ ستو کتلہ میں درج کروائی گئی۔ دوسری جانب اسی ہفتے میں ایک ایسا ہی اور واقعہ لاہور کے نشتر ٹاؤن میں پیش آیا جہاں سے تھانہ نشتر ٹاؤن کی پولیس نے ایک چار سالہ بچی مہک کو ان کی سگی پھپھوکے گھر سے اپنی تحویل میں لیا۔
چائڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیوروکی چئیر پرسن سارہ احمد نے مہک کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'مہک کے والد نے انہیں رکھنے سے انکار کر دیا تھا یہ کہہ کر کہ وہ انہیں پال نہیں سکتے۔ شایدان کے بچے زیادہ تھے اور وسائل کم، یا پھر وہ ان کے گھر پیداہونے والی ایک اور لڑکی تھیں، اسی لیے انہیں ان کی پھپھو کے حوالے کر دیا جنہوں نے انہیں شدید تشدد کانشانہ بنایا۔ '
'مہک کے حوالے سے علاقہ تھانے سے ہمیں اطلاع موصول ہوئی اور ہماری ریسکیو ٹیم نے فوری جا کر مہک کو اپنی تحویل میں لیا۔ مار پیٹ کے علاوہ مہک کے جسم کو گرم چھریوں سے بھی داغا گیا تھا۔ بچی کی پھپھو کو پولیس حراست میں لے چکی ہے جب کہ تشدد کاشکار ہونے والی دونوں بچیوں کا ذہنی و جسمانی علاج چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو میں شروع کر دیا گیا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سارہ احمد کہتی ہیں 'کرونا کے بعد سے لاک ڈاؤن کے دوران پنجاب بھر میں گھریلو ملازماؤں اور بچوں پر جسمانی تشدد میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جب کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ان کے پاس 250 بچے ایسے آئے جنہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔'
سارہ احمد نے مزید بتایاکہ بچوں پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں، پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے تحت 15 سال سے کم عمربچوں کو گھریلو ملازمت کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے مختلف سزائیں ہیں جن میں جیل اور جرمانہ دونوں شامل ہیں۔ جبکہ بچوں پر تشدد کے حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن کےاپنے قوانین ہیں کہ اگر کسی بچے پر تشدد ہوتا ہے تو ہم اس پر ایکشن لے سکتے ہیں ۔'
'جس طرح ثنا اور مہک کے کیس میں ہم نے قوانین کے تحت مداخلت کی اور کورٹ سے وارنٹ حاصل کر کے ان بچیوں کو ان کے گھروں سے بازیاب کیا اور پولیس میں ایف آئی آر کروائی۔' سارہ احمد نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو، سرچ فور جسٹس این جی او اور اداکار وچائلڈ رائیٹس ایکٹوسٹ احسن خان کے ساتھ مل کر چائلڈ ڈومیسٹک لیبر پر تشدد کے خلاف خصوصی آگاہی مہم چلا رہے ہیں ۔
انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ اگر وہ اپنے ارد گرد تشدد کا شکار کسی بچے کو دیکھیں تو چائلڈ ہیلپ لائن 1121پر فوری اطلاع دیں۔
معروف اداکار احسن خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے بہت عرصہ سے سرگرم ہیں۔ 'بچوں پر تشدد یا ان سے زیادتی کی کوئی بات پاکستان کے کسی بھی کونے میں ہورہی ہو، میں ہمیشہ اس کے بارے میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ میں اس کے حوالے سے کسی کو اطلاع دوں۔ چونکہ میرا اپنا بھی ایک نام ہے تو میں کچھ حکومتی اہلکاروں تک بھی رسائی رکھتا ہوں جن میں سارہ احمد بھی شامل ہیں اور میں نے دو مرتبہ سارہ کو ایسے ہی کیسسز کے بارے میں رپورٹ کیا اور انہوں نے فوری اس پر ایکشن لیا۔ میں ایسے کیسسز کو رپورٹ کرتا ہوں اور اس کے بارے میں آگاہی پھیلاتا رہتا ہوں۔'
احسن خان کا کہنا ہے ، ' ہم بطور معاشرہ اتنا بگڑ چکے ہیں کہ ہم لوگوں کے اندر سے احساس ہی ختم ہوچکا ہے۔ پہلے تو ان والدین کی پوچھ ہونی چاہیے جو پڑھنے لکھنے کی عمرمیں بچوں کو دوسروں کے گھروں میں کام پر لگوا دیتے ہیں ، چلیں مان لیا ان کی مجبوری ہے اس کے بعد ان کی پوچھ ہونی چاہیے جو ان بچوں کو ظلم و تشدد کا شکار کر کے ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں ان کوپوچھا جائے بلکہ ان کو سزا دی جائے، جن کے پاس بچہ کام کر رہا ہے۔'
'کیا وہ اسے گھر کے اندر تعلیم نہیں دے سکتے؟ اپنے بچوں کی طرح بہتر کھانا کپڑے یا طبی سہولیات نہیں دے سکتے؟ کیا ہم ان کا طرز زندگی اپنے وسائل سے بہترنہیں کر سکتے ؟ کیا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ان بچوں پر تشدد کیا جائے؟مجھے لگتا ہے کہ اس جرم کو اتنا چھوٹا جرم سمجھا جاتا ہے کہ یہ رپورٹ تو ہو جاتا ہے مگر اس کے بعد اس جرم کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں ملتی اور بات ختم ہو جاتی ہے، دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہے کہ آپ ایک بچے کی شخصیت عمر بھر کے لیے بگاڑ دیتے ہیں۔'
انسانی حقوق کی کارکن اور بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف کام کرنے والے ادارے ساحل کی سینئیر پروگرام آفیسر سدرہ ہمایوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اپنے مشاہدے اور تحقیق کے مطابق جن لوگوں کے گھروں میں چوبیس گھنٹے کے ملازم کام کر رہے ہیں ان ملازمین پر تشدد کیا جارہا ہے اور وبا کے دوران ایسے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور دیکھایہ جارہا ہے کہ آس پاس کے لوگ ایسے کیسسز کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
سدرہ کہتی ہیں کہ ساحل کے اعدادوشمار کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں بھی رواں برس مارچ سے لے کر جون تک اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اس وقت وہ بچے بھی خطرے کا شکار ہیں جو کسی قسم کی جسمانی و ذہنی معذوری کا شکار ہیں۔ ان کے ساتھ گھر والوں کا رویہ مزید متشدد ہے، کیونکہ گھر کے وہ افراد جو زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے تھے ان کا سامنا ان بچوں سے زیادہ وقت کے لیے نہیں ہوتا تھا مگر اب چونکہ گھروں پر زیادہ وقت گزر رہا ہے تو ایسے بچوں کے ساتھ تشدد یا زیادتی کے چانسز بڑھ گئے ہیں بلکہ وبا کے دنوں میں ہی ایسے چند کیسسز بھی رپورٹ ہوئے تھے جن میں معزور بچوں کوجنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔'
سدرہ کہتی ہیں کہ اکثر بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دی جاتی یہاں تک کہ اگر وہ اپنے جسم کے مخصوص اعضا کے حوالے سے بات کریں تو والدین انہیں گندی بات کہہ کر ڈانٹ دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کسی اس قسم کی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ یہ سوچ کر کہ یہ گندی بات ہے اور والدین اس بات پر ڈانٹ دیتے ہیں، ان سے بات نہیں کرتے ۔' والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بچوں سے اپنا رویہ ایسا رکھیں کہ بچے ان سے کوئی بھی بات کرتے ہوئے نہ ہچکچائیں۔'
سدرہ ہمایوں گذشتہ اٹھارہ برس سے بچوں کے مسائل پر کام کر رہی ہیں اور ان کے تجربے کے مطابق 'اس وقت یہ بات غور طلب ہے کہ آج کل گھر کے بیشتر بڑوں کا وقت بھی زیادہ تر گھر پر گزر رہا ہے ،وہ اتنے تحمل مزاج نہیں رہے جتنے وہ پہلے تھے۔ سبھی کے معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں اور اس کا تمام غصہ اور اکتاہٹ بے بس اور مجبور پر ہی نکلتی ہے اور وہ یا تو شریک حیات ہوتی ہے یا پھر بچے ہوتے ہیں ۔'
'بچے گھروں میں بڑوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، یا تو انہیں بہت زیادہ بند کر کے رکھا جا رہا ہے یا ان کی ایک ہی روٹین بنی ہوئی ہے ۔ یا پھر ایسے بچے ہیں جن کے گھروں میں پڑھائی لکھائی کا ماحول نہیں ہے اور والدہ سارا سارا دن کھانے پکانے اور دیگر گھریلو مصروفیات میں الجھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ بچوں پر دھیان نہیں دے پارہیں۔ اس وقت ضروری ہے کہ والدین پہلے اپنے معمولات زندگی کو مرتب کریں اور پھر بچوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے معمولات زندگی میں کیا کچھ کریں۔'