سوشل میڈیا پر گذشتہ تین دنوں سے ’گابا‘ نامی ایک پبلشر کی پانچویں جماعت کی کتاب میں چھپی ’سات بیوقوف آدمی ‘ کے عنوان سے فرضی کہانی نصاب کی کتاب میں شائع کی گئی ہے اور ناقدین کے مطابق اس کہانی کو خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے جوڑا گیا ہے جس سے ان لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔
ضلع بونیر کے لوگوں کی جانب سے بھی کتاب میں شائع ہونے والی اس فرضی کہانی اور اس کو بونیر سے جوڑنے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔
کراچی میں موجود قانونی ماہر اور وکیل قادر خان نے کتاب کے پبلشر کو قانونی چارہ جوئی کا نوٹس بھی بھجوا دیا ہے اور ان سے سات دنوں میں جواب جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔
ایک کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھیجنے والے وکیل قادر خان نے نوٹس جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں ادارے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’آپ کی کتاب میں شائع مواد سے بونیر کے لاکھوں افراد کی تضحیک اور دل آزاری ہوئی ہے اس لیے اس مواد کو کتاب سے نکالا جائے، کتاب کی خریدو فروخت بند کی جائے اور اس کی مزید اشاعت روک دی جائے ورنہ ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔‘
ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی عزیز بونیری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس قسم کا مواد چھاپنے سے بچوں کے ذہن میں ایک علاقے اور قوم کے بارے میں غلط اور تضحیک آمیز رویہ پروان چھڑتا ہے لیکن پبلشر نے بلا کسی خوف اور سوچ کے یہ کہانی نصاب کے کتاب میں شامل کی ہے۔
عزیز سے جب پوچھا گیا کہ یہ کہانی ’گابا‘ کے علاوہ بہت نامور پبلشر کی جانب سے بھی نصاب میں شامل کی گئی ہے، تو اس کے جواب میں عزیز نے بتایا کہ افسوس کی بات یہی ہے کہ اپنے آپ کو مستند اور بڑے پبلشر کہنے والے ایسی حرکات کرتے ہیں اور نسلی اور لسانی امتیاز کو پروموٹ کرتے ہیں۔
’جہاں پر بھی یہ کہانی شائع ہوئی ہے اور جس نے بھی شائع کی ہے، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بونیر کے عوام سمیت کروڑوں پشتونوں کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔‘
اس فرضی کہانی کی تاریخ کیا ہے؟
گابا کی کتاب میں چھپی یہ کہانی صدیوں پرانی ہے۔ کچھ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہ کہانی "Romantic Tales from the Punjab: with Indian Nights’ Entertainment" نامی کتاب جو ایک انگریز نے لکھی ہے میں 1892 میں شائع ہوئی تھی لیکن اس کتاب میں اس کہانی کا عنوان ’سات عقل مند‘ لکھا گیا ہے لیکن کہانی وہی لکھی گئی ہے جو گابا پبلشر کی کتاب میں شامل ہے۔
اس کتاب کو 1908 میں انڈیا کے سرکاری شعبہ ادبیات نے بھی بعد میں چھاپا ہے اور تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ اس کتاب کے لکھاری چارلس سوینیٹرن اس زمانے میں پشاور وادی میں برٹش انڈین فورس میں سینیئر پادری کے عہدے پر فائز تھے اور اس زمانے میں انھوں نے یہ کتاب لکھی تھی۔
اس کے علاوہ مصنف نے اسی علاقے کے کلچر اور تاریخ پر تین کتابیں بھی لکھی ہیں۔
کتاب میں چھپی یہ کہانی مختلف تحقیقی مقالوں اور ویب سائٹس پر بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ گابا پبلشر کے علاوہ جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس فرضی کہانی کی تاریخ پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ’نسلی امتیاز‘ پر مبنی یہ کہانی جو ضلع بونیر سے جوڑی گئی ہے، آکسفوڑد یونیورسٹی پریس، کیمبرج سمیت پاکستان میں موجود دیگر پبلشر کے نصاب کا حصہ بھی ہے اور یہ کہانی بچوں کو پڑھائی جا رہی ہے۔
فرضی کہانیوں کی اس کتاب کے مصنف اس زمانے میں پشاور وادی کا سفر کر چکے تھے اور یہاں پر گرمی کا موسم گزارا تھا اور اسی سے انھوں نے یہ فرضی کہانیاں اکھٹا کر کے کتاب کی شکل دی تھی۔
اسی طرح اس کتاب میں ’ایک بونیری اور مل‘، ’بونیری اور ان کی ڈوبتی ہوئی بیوی‘، ’فلاسفی بونیری‘ کے عنوان سے ایک درجن کے قریب فرضی کہانیاں شامل ہیں جس میں بونیر کے لوگوں کا ’مذاق‘ اڑیا گیا ہے۔
حکومت کا کیا موقف ہے؟
سوشل میڈیا پر یہ مسئلہ سامنے آنے کے بعد بونیر کے عوام اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس پر حکومت کو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس مسئلے کو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے گذشتہ روز سینیٹ میں بھی اٹھایا تھا۔
مشتاق احمد نے اپنے خطاب میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس انگریزی کتاب میں ان ’غیور‘ بونیر کے لوگوں کی تضحیک کی گئی ہے جو 1862 میں انگریزوں کے خلاف امبیلہ جنگ لڑ کر ان کو شکست دی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’بونیر کے لوگوں نے سکھوں، انگریزں اور ہر اس قوت کو شکست دی جو ان کی آزادی کو صلب کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ’ان غیور لوگوں کے بارے میں پاکستان کی کتابوں میں اس قسم کا مواد چھاپنا قابل مذمت اور نہایت شرم کی بات ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات و بلدیات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب یہ مسئلہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا تو ’ہم نے حکومتی سطح پر اس کی مذمت کی ہے۔‘
کامران نے بتایا کہ پبلشر کی جانب سے کتاب میں بونیر کے عوام کو نسلی امتیاز اور لسانی تعصب کا نشانہ بنا کر ایک غیر اخلاقی حرکت کی گئی ہے تاہم یہ پبلشر خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بورڈ کے پاس رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی صوبے کے سرکاری سکولوں میں ان کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
’صوبائی حکومت نے اس مسئلے میں انکوائری کا حکم دیا ہے اور ملوث افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔‘
اس سارے معاملے پر گابا پبلشر کا موقف لینے کے لیے انڈپنڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے ایک وضاحتی بیان موصول ہوا جو پبلشرکے سربراہ محمد راشد گابا کی جانب سے دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق ’سوشل میڈیا پر جو الزام لگایا جا رہا ہے کہ گابا کی کتاب میں کسی قوم یا علاقے کے لوگوں کو نسلی اور لسانی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ایسا بالکل نہیں ہے۔‘
گابا کے سربراہ نے بتایا کہ مذکورہ مواد ایک کہانی ہے اور یہ کہانی صرف گابا کی کتاب میں نہیں بلکہ دوسرے پبلشر کی کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔
اس مواد پر معافی مانگتے ہوئے وضاحتی بیان میں لکھا گیا ہے کہ ’ہم نے کبھی بھی کسی مذہب، قوم یا علاقے کے لیے غیرمناسب الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن پھر بھی اگر ہمارے کسی فعل یا اشاعت سے کسی کی دل آزاری ہوئی تو ادارہ معذرت خواہ ہ ہے۔‘