لارڈز کرکٹ گراؤنڈ سے اوول کیننگٹن گراؤنڈ کے درمیان چند میل کا ہی فاصلہ ہے اور لندن کی پرہجوم ٹریفک کے باوجود آپ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں یہاں پہنچ سکتے ہیں لیکن محمد عامر کو پہنچنے میں سات سال لگے تھے۔
سال 2010 میں لارڈز ٹیسٹ سے پابندی لگنے کے بعد 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں واپسی بھی دھماکہ خیز تھی۔ فائنل میں بھارتی ٹیم کے پرخچے اڑانے والے عامر آج بھی ویراٹ کوہلی کی آنکھوں میں چبھتے ہوں گے، جن کی تین گیندوں نے بھارت کو فائنل کی دوڑ میں ہوا میں اڑا کر رکھ دیا تھا۔
پاکستان نے بائیں بازو کے بولر تو بہت سے پیدا کیے لیکن وسیم اکرم اور محمد عامر جیسے بولر نہ سامنے آ سکے۔ عامر اس لحاظ سے زیادہ باصلاحیت مانے جاتے ہیں کہ وہ سوئنگ کے ساتھ رفتار بھی رکھتے ہیں اور ان کی آؤٹ سوئنگ وسیم اکرم سے زیادہ خطرناک ہے۔
اچھے خاصے کھیلتے کھیلتے اچانک کچھ عرصہ قبل عامر نے ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا اور ٹیم سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان کے اس فیصلے پر ساری دنیا میں تنقید ہوئی اور کچھ سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے اسے 'بچگانہ' فیصلہ قرار دیا تو کچھ نے 'جلد بازی' اور 'نادانی' کہا۔
موجودہ بولنگ کوچ وقار یونس نے تو اسے 'خود غرضی' قرار دے دیا کیونکہ عامر نے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کی وجہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلنے میں زیادہ دلچسپی بیان کی تھی۔
وقار یونس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر عامر پاکستان کی قومی خدمات چھوڑ کر لیگز کھیلنا چاہتے ہیں تو انھیں پھر کسی بھی فارمیٹ میں منتخب نہ کیا جائے اور ہوا بھی ایسا ہی کہ کوچ و سیلیکٹر مصباح الحق نے بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں انہیں ہری جھنڈی دکھا دی۔
عامر کی عدم دستیابی سے پاکستان کی بولنگ لائن غیر متوازن ہوگئی تھی اور نوجوان بولرز کے ساتھ آسٹریلیا کی سیریز مصباح الحق کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئی کیونکہ پاکستانی بولرز آسٹریلیا کو کسی بھی ٹیسٹ میں دو دفعہ آل آؤٹ نہ کرسکے۔
عامر بھی قومی ٹیم چھوڑ کر آسمانوں پر چمک نہ سکے۔ پاکستان سپر لیگ میں ان کی بولنگ واجبی سی رہی اور وہ کراچی کنگز کو سرخرو نہ کرسکے۔ وہ اس سیزن کے آٹھ میچز میں صرف 10 وکٹ لے سکے، جو ان کی گرتی ہوئی فارم کا اعلان تھا۔
36 ٹیسٹ میچز میں 119 وکٹ لینے والے 29 سالہ عامر کی وکٹوں کی تعداد شاید اب تک 300 ہو چکی ہوتی اگر وہ کسی فکسنگ کیس میں نہ الجھتے اور اپنی بولنگ سے مخالف بلے بازوں کو الجھاتے رہتے لیکن ہاتھوں کی گرفت سے صرف گیند نہیں نکلی بلکہ قسمت کی دیوی بھی نکل گئی تھی۔
انگلینڈ کے حالیہ طویل دورے پر پاکستان کا ایک بہت بڑا سکواڈ ہے جس میں 10 فاسٹ بولرز ہیں۔ عام طور پر کسی بھی دورے پر پانچ فاسٹ بولرز ہوتے ہیں لیکن اس دورے کو ایک کیمپ کی شکل دے کر 30 سے زائد کھلاڑی انگلینڈ یاترا پر ہیں۔ اتنے بولرز ہیں کہ بعض اوقات بولرز کو بلے باز نہیں ملتے کہ بولنگ کرسکیں۔
10 فاسٹ بولرز کی موجودگی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے حارث رؤف کی جگہ عامر کو انگلینڈ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ حارث کووڈ19 ٹیسٹ دو بار مثبت آنے کے بعد دورے سے باہر ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے بیانات سے عامر پر گولہ باری کرنے والے وقار یونس کیا عامر کے ساتھ ذہنی رابطہ استوار کرسکیں گے جبکہ وہ کچھ دن پہلے ہی ٹیم میں جوان خون کی شمولیت پر زور دے رہے تھے؟ جنید خان پر فوقیت دے کر عامر کو لانے والے اس بات کا دفاع کیسے کریں گے کہ جنید کو کیوں نہیں طلب کیا گیا؟
عامر کو انگلینڈ طلب کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انگلینڈ کی پراعتماد بیٹنگ نے وقار یونس کا اپنی بولنگ لائن پر اعتماد مجروح کردیا ہے۔ نسیم شاہ ابھی تک صحیح لائن پر بولنگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور محمد عباس کی رفتار میں بہت کمی آچکی ہے، وہ آسٹریلیا اور سری لنکا کے خلاف بھی بجھے بجھے سے تھے۔
کیا محمد عامر کیریئر کے اس موڑ پر پاکستان کرکٹ کے لیے کچھ کرسکیں گے؟ اس کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر پاکستان بولنگ انگلینڈ کے خلاف محدود اوورز کے میچوں میں ناکام ہوتی ہے تو عامر کا حصہ اس میں بہت کم ہوگا کیونکہ ان کی شمولیت بہت تاخیر سے ہوئی ہے اور اب قلیل وقت میں ان کا ردھم حاصل کرنا مشکل ہو گا۔