شام میں جمعرات کی شام ایک ایف۔15 امریکی لڑاکا طیارے نے ایرانی مسافر طیارے کے قریب پرواز کی ہے جس سے مسافر طیارے میں سوار افراد خوف زدہ ہو گئے اور طیارے کی بلندی تیزی سے کم ہونے سے متعدد زخمی ہوئے۔
ایران نے کہا ہے ہے وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
ایران کے دارالحکومت تہران سے بیروت جانے والی ماہان ایئر کی پرواز 1152 کے اندر بنائی گئی ویڈیو میں مسافروں کو خوف سے چیختے اور دعائیں مانگتے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ چھت سے آکسیجن ماسک لٹک رہے تھے۔
بالآخر طیارہ کسی نقصان کے بغیر بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتر گیا۔ طیارے میں سوار بعض مسافروں کی حالت خراب نظر آئی اور کچھ زخمی تھے۔
طیارے میں سوار ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے ایک رپورٹر کی جانب سے آن لائن پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو میں ایک مسافر کا کہنا تھا: 'طیارہ اچانک اوپر نیچے ہوا اور میرا سر چھت سے ٹکرایا۔'
امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ دو ایف۔15 لڑاکا طیارے ماہان ایئر کی پرواز کے قریب گئے تھے تا کہ ایک ہزار میٹر کے محفوظ فاصلے پر رہ کر طیارے کا 'معیاری' بصری معائنہ کیا جا سکے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا: 'ایک بار جب ایف۔15 کے پائلٹ نے طیارے کو ماہان ایئر کے مسافر طیارے کے طور پر شناخت کر لیا تو ایف۔15 محفوظ طریقے سے طیارے سے دور ہو گیا۔ پیشہ ورانہ رکاوٹ عالمی معیار کے مطابق ڈالی گئی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن سویلین جیٹ میں سوار مسافروں نے کہا ہے کہ جنگی طیارہ ان کے طیارے کے سو سے دو سو میٹر قریب آیا۔ ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے رپورٹر نے ایک ویڈیو میں کہا: 'ایف۔15 ہمارے اتنا قریب آیا کہ طیارے کے پائلٹ نے تصادم سے بچنے کے لیے تیزی سے بلندی کم کی۔'
پینٹاگون کی جانب سے ابھی وضاحت کرنا باقی ہے کہ آواز کی رفتار کے قریب ایک جنگی طیارہ اڑانے والا پائلٹ ایک متحرک جیٹ کا کس قسم کا بصری معائنہ فراہم کر سکتا ہے۔ یا اگر وہ کسی مشکوک چیز کی شناخت کر بھی لیتا تو پائلٹ کیا کرسکتا تھا۔
یہ واقعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایران کے خلاف محاذ آرائی کی فضا اور ان مہینوں میں پیش آیا جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے آخری مہینے کہا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ نے تہران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔
دوطرفہ محاذ آرائی میں شہری نشانہ بن چکے ہیں۔ جنوری میں ایران نے تہران کے قریب یوکرین کا ایک مسافر طیارہ مار گرایا تھا۔ ایران کا کہنا تھا سینیئر ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل پر عراق میں امریکی فورسز کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد اس نے اپنے حدود میں آنے والے اس طیارے کو جوابی امریکی میزائل یا لڑاکا جیٹ سمجھ لیا اور اس لیے مار گرایا۔ یوکرینی طیارے میں سوار 176 مسافر اور تمام عملہ ہلاک ہو گئے تھے۔
شام کی فضائی حدود میں لڑاکا طیارے کئی بار مسافر طیارے کے قریب جانے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان میں فروری میں ہونے والا وہ واقعہ بھی شامل ہے جس میں تہران سے دمشق جانے والی ایک پرواز ایک فضائی حملے کے بعد جس کے بارے میں شبہ تھا وہ اسرائیل نے کیا تھا، شامی طیارہ شکن توپ کے گولے سے بال بال بچی تھی۔
ماہان ایئر پر پابندیاں عائد ہیں اور امریکہ کی سخت نگرانی میں ہے کیونکہ شبہ ہے کہ وہ جنگجو اور فوجی سازوسامان مشرق وسطیٰ کے ان علاقوں میں لاتا اور وہاں سے لے جاتا ہے جہاں جنگ جاری ہے۔ ان میں شام، عراق اور لبنان شامل ہیں۔
فضائی کمپنی پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وہ ایران پر عائد امریکہ پابندیوں سے بچتے ہوئے ایران اور چین اور ونیزویلا کے درمیان سامان پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔
امریکیوں نے حال ہی میں سرکاری فضائی کمپنی پر چین کے لیے پروازیں جاری رکھنے پر تنقید کی ہے حالانکہ اس سال دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دیں تھیں۔ وبائی امراض کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا۔
امریکہ اور ایران 1979 سے حالت جنگ میں ہیں جب ایک تحریک کے نتیجے میں تہران کے امریکہ نواز بادشاہ کی حکومت ختم کر کے سخت گیر اسلامی نظریات رکھنے والوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔
ایرانی 1988 میں ایران ایئر کی پرواز 655 گرانے جانے پر اب صدمے میں ہیں۔ یہ پرواز امریکی میزائل بردار بحری جہاز ونسنز نے گرائی تھی۔ واقعے میں طیارے میں سوار 290 مسافر اور عملہ ہلاک ہو گئے تھے۔
© The Independent