برطانیہ: ’داعش کے حامی نے حملوں کے لیے ڈرون میں تبدیلی کی‘

ہشام محمد پر الزام بھی ہے کہ انہوں نے سرخ مرچوں اور شیشے کے ٹکڑے سے بھرے 'ننجا انڈے' تیار کیے، جنہیں حملے کے دوران متاثرہ افراد یا ہنگامی حالات میں امدادی کارکنوں کو'معذور یا دوسرے لفظوں میں کمزور' کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہشام محمد کے پاس مبینہ طور پر  'ریچھ کا پنجہ' اور کلہاڑیوں سمیت دیگر آلات بھی موجود تھے (تصویر: دا گریٹر مانچسٹر پولیس)

برطانیہ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند تنظیم داعش کے ایک حامی نے برطانوی مسلح افواج یا پولیس پر دہشت گرد حملے کے لیے ڈرون میں تبدیلی کی کوشش کی۔

26 سالہ ہشام محمد نے چاقو سمیت دوسرے طریقوں سے حملوں پر تحقیق کے دوران تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرون کے لیے مبینہ طور پر 'فائر کرنے کا نظام' تیار کیا۔

اولڈ بیلی کی عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس کو گریٹر مانچسٹر کے علاقے بری میں واقع ہشام محمد کے گھر سے 'مختلف قسم کے تیز دھار والے آلات' کے حصے، ڈرائنگز، تحریریں، کیموفلاج کے کپڑے اور ماسک ملے ہیں۔ 

ہشام محمد کے پاس مبینہ طور پر برچھا، 'ریچھ کا پنجہ' اور دو کلہاڑے موجود تھے۔ انہوں نے گتے کے ڈبوں اور کپڑوں پر تیز دھار آلے سے وار کرنے کی مشق کی۔

مدعا علیہ جو 2013 میں برطانیہ آئے، ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے 'ننجا انڈے' تیار کیے، جن میں سرخ مرچیں اور شیشے کے ٹکڑے بھرے ہوئے تھے جنہیں حملے کے دوران متاثرہ افراد یا ہنگامی حالات میں امدادی کارکنوں کو 'معذور یا دوسرے لفظوں میں کمزور' کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

منگل کو مقدمے کی سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر این وائٹ نے کہا: 'ہشام محمد جو ہر لحاظ سے بہت شائستہ انسان تھے، ان کی توجہ اس بات پر تھی، جسے وہ ایک مسلمان کے طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے، کہ حملہ کر کے اپنے خیال کے مطابق اپنے خدا کو خوش کریں۔'

این وائٹ نے جیوری کو بتایا کہ ہشام نے انٹرنیٹ سے انتہاپسندی پر مبنی مواد ڈاؤن لوڈ کیا، جس میں 'تشدد اور شہادت کو خوش نما' بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ اس مواد میں داعش کا پروپیگنڈا بھی شامل تھا۔

وائٹ نے کہا: 'انہوں نے اس پر تحقیق کی کہ کس طرح چھوٹے ڈرونز میں تبدیلی کر کے انہیں کوئی ایسا آلہ گرانے کے قابل بنایا جا سکتا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہو۔'

'اپنی گرفتاری کے وقت تک وہ ممکنہ طور پر مسلح افواج یا پولیس پر چاقو یا دوسرے ہتھیاروں کی مدد سے جسمانی حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔'

کچھ ہتھیار مبینہ طور پر ایک جعلی ایسکارٹ ایجنسی (سیکس ورکرز کی خدمات فراہم والی ایجنسی) نے دیے تھے، جو محمد اور ان کے کزن نے قائم کی تھی۔ ایجنسی میں آنے والے کسٹمرز کو 'خیرسگالی کے جذبے' کے طور پر کچھ رقم پیشگی ادا کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ مئی 2018 میں انہوں نے بری میں کاسل آرمری کی بیرکوں میں جانے کے لیے برطانوی فوج میں بھرتی ہونے میں 'مصنوعی دلچسپی' ظاہر کی اور انہوں نے فوجی اور مسلح پولیس کے اڈوں کے بارے میں آن لائن ریسرچ بھی کی۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہشام محمد اور ان کے کزن فیصل ابو احمد دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ایک آن لائن جعلی ایسکارٹ ایجنسی بنائی تھی۔

وائٹ نے کہا کہ دھوکے سے کھولے گئے اکاؤنٹس میں ادا کی جانے والی رقم کو کیس سے 'متعلقہ' سامان جن میں 'کلہاڑے، چہرے کے ماسک اور چاقو تیز کرنے کے پتھر' شامل تھے، خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

مبینہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب ہشام محمد کے مالک مکان 2018 میں ان کے گھر گئے کیونکہ انہوں نے کرایہ ادا نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اونکر سنگھ نے کہا کہ وہ سامان جن میں چاقو، تاروں سے بھرا ٹب، سولڈرنگ آئرن (دھاتی اشیا کو ٹانکا لگانے کا برقی آلہ) شامل تھا، دیکھ کر 'پریشان' ہوئے۔ انہوں نے سامان کی تصاویر بنا لیں جو بعد میں انہوں نے پولیس کو دکھائیں۔

تاہم بری کے علاقے وکٹوریا ایونیو کے یہ رہائشی ملزمان دہشت گردی کی کارروائیوں کی تیاری میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے 25 سالہ کزن فیصل ابواحمد جو اسی پتے پر رہتے ہیں اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ حملے کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے حکام کو آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔

پولیس کو دیے گئے انٹرویو کے دوران ہشام محمد نے تردید کی کہ وہ دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ انہوں نے پولیس افسروں کو بتایا کہ وہ 'نئی چیزیں بنانے اور ایجادات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔'

عدالت کو بتایا گیا کہ ہشام محمد نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے برطانوی پولیس اور فوج کے اڈوں کے بارے میں آن لائن ریسرچ کی تھی جب کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں مانتے کہ مانچسٹر ایرینا میں بم دھماکہ یا ویسٹ منسٹر پل پر حملہ ہوا تھا۔

استغاثہ کے مطابق انہوں نے اس پر بھی سوال اٹھایا کہ آیا لی رگبی نامی فوجی پر ہونے والا حملہ حقیقی تھا اور دعویٰ کیا کہ وہ 'دہشت گردی کے تمام پہلوؤں پر تحقیق کرنا چاہتے تھے تا کہ وہ حقیقت تک پہنچ سکیں۔'

(اضافی رپورٹنگ: پی اے)

اس مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا