ایران کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا سے چلنے والے ایک مسلح گروہ کے ایرانی نثراد امریکی سرغنہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ہفتے کو ایران کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ مسلح گروہ 2008 میں ایک مسجد پر حملے میں ملوث تھا جس میں 14 افرار ہلاک جب کہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ایرانی وزارت انٹیلی جنس نے کنگڈم اسمبلی آف ایران کے سرغنہ جمشید شارمہد پر کئی اور حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ 65 سالہ جمشید شارمہد کو کیسے گرفتار کیا گیا ہے۔
وزارت انٹیلی جنس کی جانب سے اسے ایک 'پیچیدہ کارروائی' قرار دیا گیا لیکن ان کی جانب سے مزید کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ وزارت کی ویب سائٹ پر جمشید شارمہد کی آنکھوں پر پٹی بندھے ایک تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔
ایران کے وزیر انٹیلی جنس محمود علوی نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ جمشید شارمہد کو ایران میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کنگڈم اسمبلی آف ایران کو خبر رساں ادارے کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میل میں ابھی تک اس حوالے کوئی جواب یا ردعمل نہیں دیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ایرانی حکومت ایرانی اور غیر ملکی افراد کو بے بنیاد الزامات پر گرفتار کرنے کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بین الااقوامی قوانین کی پاس داری کرے۔'
ایران کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے نشر کی جانے والی ایک رپورٹ میں جمشید شارمہد پر 2008 میں حسینیہ سیدالشہدا، مسجد شیراز میں بم دھماکے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ انہیں 2010 میں آیت اللہ خمینی کے مزار پر ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔
کنگڈم اسمبلی آف ایران نامی تنظیم جسے فارسی میں انجمن بادشاہی ایران کہا جاتا ہے، ایران میں شاہی نظام کی بحالی چاہتی ہے۔
اس تنظیم سے منسوب ایک بیان میں 2010 میں ہونے والے ایک دھماکے میں ایرانی جوہری سائنسدان کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے جمشید شارمہد کو امریکہ میں رہنے کی اجازت دینے پر امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'امریکہ اپنے ملک میں رہنے والے دہشت گرد گروہوں کی ایرانی عوام کے خلاف کی جانے دہشت گردی کی حمایت کرنے کا ذمہ دار ہے۔'
انڈپینڈنٹ فارسی کے نمائندے بابک طاغوئی ایران کی جانب سے جمشید شارمہد کی گرفتاری کو سالوں پرانی لڑائی کی تازہ ترین کڑی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جمشید شارمہد دراصل رائل سوسائٹی نامی تنظیم کے رکن ہیں جو بادشاہت کی حامی ہے۔
بابک طاغؤی کہتے ہیں کہ ایران نے جمشید شارمہد کی گرفتاری کے مقام کو ظاہر نہیں کیا لیکن عین ممکن ہے کہ انہیں ایران کے کسی ہمسایہ ملک سے گرفتار کیا گیا ہو۔
ان کے مطابق جمشید پر پر عائد الزامات بھی ثابت نہیں ہیں۔
بابک طاغوی کے مطابق ایران نے 2008 میں ہونے والے دھماکے کے بعد اس کا الزام جمشید شارمہد پر عائد کیا اور ان پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔جب کہ پہلے اس حملے کی ذمہ داری تھنڈر ٹو نامی گروہ پر عائد کی گئی تھی۔
بابک طاغوی لکھتے ہیں کہ ' جمشید شارمہد کی گرفتاری کے بعد ، رائل سوسائٹی ایران سے وابستہ دوسرے افراد کو بھی گرفتار کرنے اور ڈرامائی اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیے جانے کی توقع ہے، اور اسلامی جمہوریہ کے اسلامی انقلابی ٹربیونل کے برانچ 15 کے لیے طویل المیعاد قید اور پھانسی جیسی سخت سزاؤں کے جواز کے لئے شرائط طے کرنا باقی ہے۔'
بابک طاغوی کے مطابق دھماکے کے دن اس وقت کے وزیر اطلاعات غلام حسین محسنی ایجی نے ذمہ داروں کی گرفتاری کی خبر کی تصدیق کی تھی۔ چھ دن بعد عدلیہ کے ترجمان نے اس واقعے میں امریکہ اور برطانیہ پر مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے بارہ بمباروں کی گرفتاری کا اعلان کیاتھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھماکے میں ملوث ہونے پر مہدی اسلامیین (30 سال کی عمر)، محسن اسلامیین (19 سال کا طالب علم)، روزباہ یحییظاہی (سیاسی کارکن)، اور علی اصغر پشتے (طالب علم) نامی چار افراد کو پھانسی دے دی گئی۔
پھانسی سے قبل، اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں، مہدی اسلامیین نے بغیر کسی ثبوت کے دو سال تک ہونے والے تشدد اور جج ابوگلسم صلوتی کی پھانسی کے بارے میں بات کی ، اور ان سے مدد کی درخواست کی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت ، جو آزاد پریس اور دفاع کے وکلا کی موجودگی کے بغیر منعقد ہوئی، اس میں محسن اسلامیین، علی اصغر پشتے اور روزبیہ یحییظاہ، جنہیں صرف تھنڈر گروپ کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بم دھماکے کا الزام عائد کیا گیا اور 7 دسمبر کو عدالت کی سماعت میں اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے بعد انھیں سزائے موت سنا دی گئی۔'
بابک کے مطابق ایران کے انسانی حقوق کے ممتاز کارکن اور وکیل عبدالفتاح سولتانی نے ان زیر حراست افراد کی عدالت میں نمائندگی کی اپیل کی تھی ، جو منظور نہیں کی گئی ۔
بابک طاغوی کا مزید کہنا ہے کہ 'حالیہ برسوں میں، اسلامی جمہوریہ کی وزارت انٹلیجنس کے ایجنٹوں نے ترکی میں مقیم مجرموں حتی کہ ایرانی مجرموں کو بھی استعمال کیا ہے جن کیا مقصد ان کے مخالفین کو اغوا اور ان کے قتل کے لئے وزارت انٹیلی جنس کے ساتھ تعاون کی شرط پر قید کی سزایں کم کردی گئیں ہیں۔'
بابک کے مطابق جمشید شارمہد نے نہ صرف عدالتی عہدیداروں کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی بمباری میں ملوث ہیں، بلکہ رائل ایرانی ایسوسی ایشن کی ترجمان ، روزیتا لطفی نے دعوی کیا ہے کہ اسلامی ایسوسی ایشن کے عہدیدار اسلامی جمہوریہ کے بم دھماکوں اور حملوں میں ملوث تھے۔ انہوں نے جمشید شارمہد پر عائد الزامات کو مسترد کیا ہے۔