ہم شدید انتقام پسند لوگوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
فرض کیجیے ایک بہت امیر آدمی ہے۔ اس کی بہت سی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں ہیں، ملازم ہیں، محل نما گھر ہے، بنکوں میں اربوں روپے پڑے ہیں اور وہ ایک شاندار زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے ہاں اولاد ہوتی ہے اور وہ ذہنی معذور نکلتی ہے۔
آپ کسی محفل میں یہ تذکرہ چھیڑ کے دیکھ لیں۔ سب سے پہلے یہ بات عام ہو گی کہ 'دیکھا، حرام کھاتا تھا، رشوت دیتا تھا، ناجائز کام کرتا تھا، یہ اسی کا انجام ہے۔'
پھر وہیں کسی کو اس کا رویہ دوسروں کے ساتھ تکبر والا لگے گا، کوئی سنا سنایا واقعہ پیش کر دے گا کہ وہ امیر آدمی کیسے امیر بنا، جتنے بندے ہوں گے اس جگہ، ان سے ڈبل برائیاں وہ مذکورہ امیر شخص میں نکال دیں گے۔
غور کیجیے گا اس وقت کوئی کسی قسم کی 'سنی سنائی اچھائی' نہیں بتائے گا۔
اب عام زندگی کو دیکھ لیں۔ کسی اداکار کی طلاق ہو گئی، آپ کہیں گے 'کتے کماں دا کتا ای انجام' اور شوبز کے مشہور سکینڈل سنانے لگیں گے۔ کسی ہمسائے کے یہاں چوری ہو گی تو دوسرے ہمسائے اس بات پہ شک کریں گے کہ ایف آئی آر میں جو پچاس تولے سونا لکھوایا ہے وہ کبھی نظر کیوں نہیں آیا؟ رشتے داروں میں کسی کا بچہ فیل ہو جائے تو عام طور پہ سب کا ری ایکشن یہی ہو گا 'اس کی حرکتیں نہیں ٹھیک تھیں۔' کسی کی بچی نے پسند کی شادی کر لی تو جاننے والے تبصروں میں پردادا تک کی وارداتیں سنائیں گے اور اسے جزا، سزا وغیرہ سے جوڑ دیں گے۔
یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے، ہم اس وقت ہمدرد ہو کے آخر کیوں نہیں سوچ سکتے؟ ہم اس امیر آدمی کے ذہنی معذور بچے سے ہمدردی کیوں نہیں رکھتے؟ جس کی طلاق ہوئی، ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اس اداکار کے گھر میں واقعی کوئی حل نہ ہونے والا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ کیوں ہمیں خیال نہیں آتا کہ چوری جس ہمسائے کے گھر ہوئی، اصولی طور پہ وہی اپنا ٹھیک ٹھیک نقصان بتا سکتا ہے، ہمیں کس بات کی ٹوہ ہے؟ جہاں بچہ فیل ہوا ہے، ہو سکتا ہے وہ پرچوں میں بیمار ہو گیا ہو، یا مارکنگ ہی غلط ہوئی ہو اور جس کی بچی نے شادی کی وہ خالصتاً اس کی مرضی والا معاملہ تھا، اس میں تو ہم آپ بولنے والے بھی کون ہوتے ہیں؟ کہاں یہ کہ نسلیں چٹخاروں میں تل لی جائیں؟
بات کو مزید سادہ کرتے ہیں۔ فرض کریں آپ کے ساتھ ان چاروں میں سے کوئی ایک واقعہ ہوتا ہے، تب کیا آپ مان لیں گے کہ ہاں میں نے فلاں کام کیا تھا اور اس کے نتیجے میں یہ معاملہ اب میرے ساتھ ہوا ہے؟ اپنی زندگیوں میں ہمیں خود کو شک کا فائدہ دینا آتا ہے، دوسروں کو ہم وہ نہیں دینا پسند کرتے، بات سادہ ترین ہے لیکن سمجھنا بڑی مشکل ہے۔
فرض کیجیے خدانخواستہ آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہوتا ہے، ہاتھ پیر ہل جاتا ہے، کیا آپ کبھی مانیں گے کہ میں نے فلاں جگہ رشوت دی تھی اس لیے میرے سر یہ برائی آ گئی؟ کبھی نہیں۔ اپنے اوپر جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو ہمارا سوال 'صرف میں ہی کیوں؟' ہوتا ہے۔
اس دنیا میں ہم پر جتنی بڑی مصیبت بھی آ جائے ہم کوئی نہ کوئی 'وجہ' ڈھونڈ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے نزدیک ساری زندگی ایسا کچھ نہیں کرتے جس کا 'خمیازہ' کبھی ہمیں 'بھگتنا' پڑے لیکن دوسروں کی باری پہلا ری ایکشن ہمارا کیا ہوتا ہے؟ 'اس نے یاد ہے ایسا کیا تھا، اب ظاہر ہے، یہ تو ہونا ہی تھا۔'
یہ جو ہر عمل کا رد عمل ہے نا بھائی، یہ گیند کو دیوار پہ مارنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن فزکس کے علاوہ عام زندگی میں یہ ہمارے کچھ خاص کام نہیں آتا ہے۔
آپ کہیں کہ فلاں چور ہے تو اس کا بیٹا قتل کرے گا، فلاں بے ایمان ہے تو اس کی 'حرام کمائی' ایک نہ ایک دن لٹ جائے گی، فلاں میں یہ 'عیب' ہے تو اس کی روزی میں برکت نہیں ہے، یہ اصل میں انتقامی قسم کی باتیں ہیں۔
حقیقت میں اندرکھاتے ہم ان سب لوگوں کی کسی نہ کسی معاشرتی حیثیت سے پریشان ہوتے ہیں۔ اب چاہے وہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں والا ہو، کوئی اداکار ہو، کوئی ہمسایہ ہو، کوئی رشتے دار ہو، اگر وہ کہیں کسی بھی معاملے میں ہم سے برتر ہے تو ہمارا ہمدردی والا کونہ ایک دم خالی ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں سوچیں اگر آپ کے گھر کام کرنے والی خاتون کے یہاں کوئی حادثہ ہو جائے، کوئی غریب رشتے دار کسی ناگہانی میں پھنس جائے تو آپ جب آپس میں بیٹھیں گے، کیا ری ایکشن دیں گے؟
'ہائے یار، بے چارے پہلے ہی غریب لوگ تھے، اب یہ ہاتھ ہو گیا۔' کوئی کہے گا ان کی تو قسمت ہی خراب ہے، کوئی سوچے گا کہ اب وہ لوگ اس مشکل سے نمٹنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے، یعنی ہمدردی کے سارے ووٹ اس کے ساتھ ہوں گے جو غریب ہو گا، حالات کا ستایا ہو گا، معاشی و معاشرتی ہر دو لحاظ سے آپ کی نسبت کم تر ہو گا۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ایسے بندے کی خوشی نہیں دیکھ سکتے جو کسی بھی لحاظ سے آپ کی نسبت بہتر مقام پہ ہے۔ آپ اس پہ آنے والی ہر مصیبت جائز سمجھتے ہیں اور اس کے لیے 'جائز ناجائز' یا 'سزا جزا' کے سوال اٹھا کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی بلاواسطہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ سب لوگ ٹانگیں کھچوا کھچوو کے آپ کے لیول پر یا تھوڑا نیچے کہیں پہنچ جائیں؟
آخر اپنی مرتبہ آپ کو ان میں سے کوئی وجہ کیوں نظر نہیں آتی۔ ہم میں سے دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے۔ جب تک عیبوں پہ پردہ ہے تو ہم سے بڑا کوئی معزز نہیں، دوسروں کے بارے میں رائے دینے والا کوئی نہیں، جہاں ہم خود ایکسپوز ہوئے وہاں ہم سوچنے لگ جاتے ہیں 'صرف میں ہی کیوں؟'
اس لیے جان عزیز کہ دوسروں کو آپ نے کبھی رعایتی نمبر دیے ہی نہیں۔
ایسا ضروری نہیں کہ آپ ایک عقل مندانہ معاشرتی رویہ رکھیں تو لازمی آپ کے ساتھ بھی اچھا ہو گا، نہیں! ہرگز نہیں! لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ کی وجہ سے شاید چار دوسرے لوگ چوبیس مزید لوگوں کی زندگیوں میں ان پر بلاوجہ کے نظریے نہیں ٹھونس سکیں گے، ان کے بارے میں فیصلے نہیں ٹھوک سکیں گے۔
'اس نے ایسا کیا تھا؟ اب تو اس کے ساتھ یہ ہونا ہی تھا۔' یار زندگی کوئی ست ربڑی گیند تھوڑی ہے باس؟ ہر بندہ اس دنیا میں الگ حالات سے گزر رہا ہے۔ سب کی زندگی ایک سی ہوتی، کلیے طے ہوتے، پھر کون پوچھتا نجومیوں کو اور کون دعائیں کراتا اور کون سہارے ڈھونڈتا پھرتا؟ یہ شدید سنگ دلی ہے، ظلم ہے اور خود اپنے تھاٹ پراسس کے ساتھ بے ایمانی ہے۔
دوسروں کے ساتھ انصاف کریں، خود کے لیے جوابی اچھائی کی امید چھوڑ دیں۔ خدا خوش رکھے جتنی رہ گئی ہے ایسے ہموار سیدھی سپاٹ گزرے گی، مزہ نہ آیا تو پیسے واپس!