بھارت کے بعد اب امریکہ میں بھی معروف چینی ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں اور صدر ٹرمپ کے بعد اب امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے بھی ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
اتوار کو اے بی سی چینل پر بات کرتے ہوئے سٹیون کا کہنا تھا: ’قومی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر ٹک ٹاک کو یا تو امریکہ میں فروخت کر دیا جائے یا اسے بلاک کر دیا جائے۔‘
تاہم سٹیون نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی ایپ کو بند کرنے کی دھمکیوں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
امریکی وزیر خزانہ نے یاد دلایا کہ امریکہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق کمیٹی، جس کے وہ خود سربراہ ہیں، ٹک ٹاک کی امریکہ میں سرمایہ کاری کا جائزہ لے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں عوامی سطح پر یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ پوری کمیٹی اس بات پر متفق ہے کہ ٹک ٹاک اب پہلے کی طرح امریکہ میں موجود نہیں رہے گی کیوں کہ اس سے ایک کروڑ امریکیوں کی معلومات چین کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے۔‘
مختصر ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک امریکہ سمیت دنیا بھر کے نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہے اور عالمی سطح پر اس کے ایک ارب سے زیادہ صارفین ہیں۔
تاہم امریکی عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ یہ ایپ چینی انٹیلی جنس کا ایک ذریعہ ہوسکتی ہے جبکہ ٹک ٹاک نے ایسی کسی بھی الزام کی تردید کی ہے۔
سٹیون نے کہا کہ انہوں نے سپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ اور کانگریس کے رہنماؤں سے امریکہ میں ٹک ٹاک کے مستقبل کے بارے میں بات کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ہم متفق ہیں کہ اس صورت حال میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ایپ کو فروخت کرنے پر مجبور کریں یا پھر اسے بلاک کرنا پڑے گا۔ ہر شخص اس بات پر متفق ہے کہ اس کی موجودگی اس طرح نہیں قائم نہیں رہ سکتی۔‘
وال اسٹریٹ جرنل کی ہفتے کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے اس ایپ پر پابندی لگانے کی دھمکی کے بعد مائیکرو سافٹ نے ٹک ٹاک کے امریکہ میں آپریشنز خریدنے کے لیے جاری مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کو ٹک ٹاک پر جاسوسی کا الزام لگاتے ہوئے اس پر امریکہ میں پابندی لگانے کا عندیہ دیا تھا۔
امریکہ کے لیے ٹک ٹاک کی جنرل منیجر وینیسا پیپاس نے ان الزمات کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی ڈیٹا سکیورٹی کے حوالے سے امریکی خدشات کو دور کرنے اور اسے ’محفوظ ترین ایپ‘ بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
پیپاس نے ایک پیغام میں کہا: ’ہم امریکہ سے کہیں بھی جانے کا منصوبہ نہیں بنا رہے ہیں۔‘
ان دنوں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ دونوں ممالک نے گذشتہ ماہ ایک دوسرے کے قونصل خانے بند کر دیے ہیں جبکہ امریکہ اپنے اتحادی ممالک پر چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کو مختلف پراجیکٹس سے بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔