سپریم کورٹ میں بدھ کو صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے حوالے سے جمع کرائی گئی پولیس رپورٹ کے مطابق نادرا اور سیف سٹی پراجیکٹ اسلام آباد سمیت دیگر حکومتی محکمے اور ادارے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کو مطلوبہ معلومات تاحال فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پولیس رپورٹ میں عدالت کو باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سینیئر صحافی کے اغوا کاروں کا سراغ لگانے اور انہیں انصاف کے کٹہرے تک لانے کی مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔
اسلام آباد کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس، آپریشنز نے، جو مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ ہیں، آج اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔
مطیع اللہ جان نے اپنے خلاف توہین عدالت سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے سلسلے میں جمعرات کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے۔
یاد رہے کہ مطیع اللہ جان کو توہین عدالت کے اسی کیس کی 22 جولائی کو ہونے والی پہلی پیشی پر سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے سے ایک روز قبل اسلام آباد کے سیکٹر جی تھری سے پولیس وردیوں میں ملبوس نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے۔ تاہم اسی رات ایک بجے کے قریب انہیں وفاقی دارالحکومت سے 70 کلومیٹر دور فتح جنگ کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جمع کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ مطیع اللہ کے اغوا کاروں کا سراغ لگانے کے لیے متعدد حکومتی محکموں سے مانگی گئی ضروری معلومات کا تاحال انتظار ہے، یہ معلومات تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے ضروری اور مددگار ثابت ہوں گی۔
رپورٹ کے مطابق واقعہ کے فوراً بعد اسلام آباد کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس انوسٹی گیشن کو جائے وقوعہ کی جیو فینسنگ کرنے کا کہا گیا تھا تاکہ مبینہ اغوا کاروں کی شناخت کی جا سکے تاہم اس پر تاحال کام جاری ہے۔
اسی طرح متعلقہ محکمہ سے مطیع اللہ کے موبائل فون کی سی ڈی آر (کال ڈیٹیل ریکارڈ) رپورٹ تیار کرنے کا بھی کہا گیا مگر تحقیقاتی ٹیم کو ابھی تک یہ رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کے ڈائریکٹر کو واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے کی درخواست بھی بھیجی گئی تھی، تاہم تحقیقاتی ٹیم تقریباً دو ہفتے بعد بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کا انتظار کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح 24 جولائی کو تحقیقاتی ٹیم نے اغوا کاروں کی شناخت کے لیے نادرا کو سی سی ٹی وی فوٹیج بھیجی۔ یہ کام بھی تاحال نامکمل ہے کیوں کہ نادرا فوٹیج میں نظر آنے والے افراد کی ابھی تک شناخت نہیں کر پائی۔
’صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کاروں نے جہاں چھوڑا تھا وہاں سے پولیس نے ان کی آنکھوں پر باندھی گئی کالی پٹی اور منہ پر لگی ٹیپ بھی برآمد کی اور دونوں اشیا فارنزک تجزیے کے لیے متعلقہ محکمے کو بھیجی گئیں۔ تاہم یہ فارنزک رپورٹ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو پائی ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات بھی شامل کی گئی ہے، اس لیے اب ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بھی اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق مطیع اللہ کے مبینہ اغوا کے بعد وفاقی وزارت دفاع، انٹیلیجنس بیورو، آئی ایس آئی، ایم آئی اور دوسرے کئی محکموں اور اداروں سے بھی ان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام اضلاع میں پولیس تھانوں اور ایف آئی اے سے بھی رابطے کیے گئے کہ کہیں مطیع اللہ جان کسی مقدمے میں گرفتار تو نہیں ہیں، ان سب اداروں نے نفی میں جوابات دیے تھے۔