پانچ اگست آکر چلی گئی ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے اور ریاستِ جموں کشمیر سے لداخ کو الگ یونین علاقہ قرار دینے کے ایک سال بعد مودی سرکار کے ترقی لانے، کرپشن اور امتیازی سلوک کے خاتمے اور انہیں بھارتی قومی دھارے میں شامل کرنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔
اس کی بجائے بیگانگی اور مایوسی کا سفر جاری ہے۔ وادیِ کشمیر میں زندگی مسلسل منجمد ہے اور بہتری کی بجائے ابتری بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈومیسائل قانون کے بعد وادی کے قدیم باسی اقلیت میں تبدیل ہونے کے خدشے سے دوچار ہیں اور ان کے لیے کہیں سے امید کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی۔
مودی سرکار مسلسل بھارت کو ہندتوا ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے جب کہ پاکستان کے اندر اپنے آپ کو طفل تسلی دینے کے کئی نمائشی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دونوں ریاستوں کے اقدامات کے نتیجے میں کشمیریوں کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آ رہی۔
پاکستان اور بھارت کشمیر کے سوال پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ سب سے پہلے 1948 میں اسی مسئلے پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں جموں اور کشمیر کے دو ٹکڑے ہوئے اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے بعد جنگ بندی لائن قائم ہوئی جو لائن آف کنٹرول بھی کہلاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جموں اور کشمیر وادی بشمول لداخ کے بھارت کے پاسچلی گئی جبکہ باقی حصہ جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، پاکستان کے حصے میں آیا۔
1965 میں آپریشن جبرالٹر کے بعد ایک اور جنگ ہوئی اس کے بعد بھی کوئی بڑی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ 1971 کی جنگ کے دوران جب بھارتی افواج مشرق میں مصروف تھیں تب بھی کشمیر کے محاذ پر کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہوئی بلکہ موجودہ پاکستان کا پانچ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ بھی بھارت کے قبضے میں آ گیا تھا جو شملہ معاہدے کے بعد پاکستان کو واپس ملا۔
کشمیر کے معاملے پر آخری بڑی جنگ کارگل کے محاذ پر ہوئی تھی جو 1999 میں شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھی کوئی علاقائی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور نہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کسی قسم کے مذاکرات کے نتیجے میں کوئی پیش رفت۔
نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلح جدوجہد کے خلاف عالمی رائے عامہ مضبوط ہوا اور بھارت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر پرویز مشرف اور بھارتی سرکار کے درمیان مذاکرات بھی مشرف سرکار کے خاتمے کے ساتھ ہی دم توڑ گئے تھے۔ نومبر 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد نہ پیپلز پارٹی حکومت اور نہ 2013 کے بعد ن لیگ حکومت اس مسئلے پر کوئی پیش رفت کرسکی۔
14 فروری 2019 میں پہلے پُلوامہ اور پھر اسی مہینے کے اواخر میں بھارتی جنگی جہازوں کی طرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی، بالاکوٹ پر بمباری اور پھر بھارتی فضائیہ کے جہاز کے گرائے جانے اور بھارتی پائلٹ ابھینندن کے پکڑے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے۔ بی جے پی نے پُلوامہ واقعے اوربالاکوٹ میں در اندازی کو بنیاد بنا کر انتہاپسندی کو مزید ہوا دی اور اسی لہر پر چڑھ کر مئی میں بھاری اکثریت حاصل کی۔
اپریل 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ بھارتی انتخابات کے بعد مودی دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں پاکستان بھارت تعلقات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یعنی مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔ جولائی 2019 میں عمران خان کے امریکی دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ مودی نے خود کشمیر کے مسئلے پر امریکی ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور عمران خان کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی سے پاکستان میں کئی لوگوں میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب یہ مسئلہ حل کی طرف جائے گا۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے تو امریکی دورے کے بعد شادیانے بجانے شروع کردیے تھے۔ عمران خان نے امریکہ سے واپسی پر یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے دوسرا عالمی کپ جیت لیتا ہے۔ لیکن یہ دھمالیں اس وقت ماند پڑ گئیں جب چند روز بعد پیر پانچ اگست کو مودی سرکار نے اپنی نئی بھاری اکثریت کو فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی کے دیرینہ انتخابی وعدے کو عملی جامہ پہنایا اور یک لخت بھاتی آئین میں درج آرٹیکل 370 اور 35 کو یکسر ختم کر دیا اور چند دن بعد جموں اور کشمیر کی نہ صرف ریاستی حیثیت ہی ختم کرڈالی بلکہ ریاست کے دو ٹکڑے کرتے ہوئے بد اکثریت کے علاقے لداخ کو الگ یونین علاقہ قرار دے دیا اور جموں اور کشمیر کو ملا کر ایک یونین علاقہ بنا ڈالا۔ ٹکڑے کرتے ہوئے مسلمان اکثریت کا علاقہ کارگل بھی لداخ میں رہنے دیا۔
پچھلے ایک سال میں بہتر سال سے زائد جاری کشمیریوں پر مظالم کے نئے رکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ نئے ڈومیسائل قانون کے بعد اب ریاست سے باہر کے افراد کو مقامی شہریت ملنے اور واحد مسلمان اکثریت والی ریاست کے اقلیت میں بدلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پچھلے ایک سال سے کشمیری معیشت تباہ ہو گئی ہے، زندگی معطل ہے، مواصلات کا نظام مفلوج ہے، انٹرنیٹ بند یا نہ ہونے کے برابر ہے، سینکڑوں سیاسی کارکن یا جیلوں میں ہیں یا نظربند۔ اس وقت بی جے پی کے اک دکا لوگوں کو چھوڑ کرتمام کشمیری جماعتیں جن میں روایتی دہلی نواز جماعتیں بھی شامل ہیں دہلی مخالف بن گئی ہیں۔
کشمیریوں سے باقی ماندہ امیدیں چھیننے کے ایک سال بعد پانچ اگست کو بھارت کی اقلیتوں اور کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی اور چار صدیوں سے قائم ایودھیا کی مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع کی۔ اس طرح مودی سرکار نے بھارتی سیکیولرزم کے انہدام کی بنیاد بھی ڈال دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے اس سال بھی روایتی طریقے استعمال کیے ہیں۔ کشمیر پر گانا ریلیز کرنا، ایک منٹ کی خاموشی، چھوٹے موٹے جلسے جلوس، ٹی وی پروگرام، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جس میں وزیر اعظم خود بھی شریک نہ ہوئے اور جو ایک دوسرے کے خلاف تقریروں کی نذر ہو گیا اور سلامتی کونسل کے متوقع اجلاس جس میں چند منٹ کچھ بات چیت ہوگی اور کچھ نہیں ہونے جا رہا۔
رہی سہی کسر شاہ محمود قریشی نے پوری کر دی۔ ایک ٹی وی پروگرام میں جذبات سے بے قابو ہوکر موصوف نے کشمیر کے مسئلے پرسعودی اور خلیجی حکمرانوں کی سرد مہری پر جو کچھ کہا ہے اب ہمارے گلے میں اٹک گیا ہے۔ ٹی وی پروگرام کے آن لائن حصے کو حذف کرانے کے باوجود یہ مسئلہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ امکان ہے کہ اس مسئلے پر ایک عدد اور سبکی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔
ریاستیں تاریخی طور کبھی بھی رضاکارانہ طور پر علاقہ کسی کے حوالے نہیں کرتیں۔ ایک بڑی ریاست ہونے کے ناتے سے بھارت سے سٹرٹیجک کشمیر کا علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے کی توقع رکھنا بھی حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔ جنگیں ہم لڑ چکے۔ جس طرح کے ہتھیار اب دونوں ریاستوں کے پاس ہیں ان کے ساتھ روایتی جنگ کسی بھی لمحے غیر روایتی جنگ میں بدل سکتی ہے اور اس کا مطلب نہ صرف دونوں ملکوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہے بلکہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچانا ہے۔ دنیا ہمیں یہ کرنے نہیں دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ذلت، تباہی اور انسانی حقوق کی پامالی کشمیریوں کا مقدر ہے۔ ہرگز نہیں۔ ہمیں ہر صورت میں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے کچھ کرنا ہو گا جو روایتی طریقوں سے ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے ممالک جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں ہرگز دلچسپی نہیں رکھتے کہ وہ بھارت کو ریفرنڈم کے لیے مجبور کریں اس لیے سلامتی کونسل سے بھی کچھ نہیں نکلنا۔ بھارت میں کشمیریوں کے انسانی حقوق بھارت کے اندر جمہوری اور سیکیولر کیمپ کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ مودی بھارت کو یوگوسلاویہ کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ دیر یا بدیر بھارت کو اس بات کا پتہ چل جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بھارتی سپریم کورٹ ایک سال سے زائد عرصے بعد اس مقدمے کا کیا فیصلہ دیتی ہے جس میں پانچ اگست کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن عدالتیں ملک میں موجود حالات کے اندر کام کرتی ہیں اس لیے اس سے بہت زیادہ توقعات قائم کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔
پاکستان کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا آپ کی طاقت کو دیکھ کر رویہ اپناتی ہے آپ کی اخلاقی اور اصولی پوزیشن کو دیکھ کر نہیں۔ اس لیے اگر ہم کشمیر کے مسئلے پر چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری بات سنے تو ہمیں اپنے آپ کو دنیا کے لیے ناگزیر بنانا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کو معاشی، سیاسی اور جمہوری طور پر مضبوط کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے اپنے وفاقی ڈھانچے سے احتجاجی آوازیں بلند ہو رہی ہوں، صوبائی خودمختاری کی آوازوں کو ہم غداری قرار دیں، تنوع کی نفی کریں، انسانی حقوق کو دبائیں، پولیس سٹیٹ بننے کی طرف جائیں، اپنے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو شہری سمجھنے کی بجائے انہیں رعایا سمجھیں اور دنیا سے یہ توقع رکھیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑی ہو۔
نہ نمائشی اقدامات سے کچھ حاصل ہو گا اور نہ کوئی شارٹ کٹ چلے گا۔ مشکل اور غیر روایتی طریقوں سے ہی عشروں پرانے پیچیدہ مسائل حل ہوں گے۔ جذباتی نعرے بازی سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔