'میں بس گھر سے نکل پڑا،کچھ نہیں سوچا کہ کہاں جانا ہے۔ بس جہاں ہوا لے گئی وہیں کا رخ کروں گا، مقصد اس شہر کے مصنوعی پنجرے سے رہائی پا کر فطرت سے جا ملنا تھا۔'
ابوزر مادھو لاہور شہر کے شور و غل سے دور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی وادیوں میں محو سفر ہیں۔ ابو زر پرفارمنگ آرٹسٹ ہیں اور ایک نجی سکول میں یہی مضمون پڑھاتے بھی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: 'میں زیادہ وقت کے لیے ایک جگہ نہیں رہ سکتا، اس لیے سفر کرتا رہتا ہوں۔ کبھی لمبا اور کبھی ہرماہ کوئی بھی چھوٹا سفر، چاہے کسی گاؤں یا قصبے کا ہی کیوں نہ ہو۔ وبا پھیلی تو پہلے تو گھر پر بند ہوئے اور اس کے بعد کرونا ہو گیا تو اضطراب مزید بڑھ گیا، لہذا عید کے بعد فیصلہ کرلیا تھا کہ بس اب اور نہیں رک سکتا۔ ٹرین کا ٹکٹ آن لائن بک کروایا کیونکہ لاہور ریلوے سٹیشن پر ٹکٹس مل نہیں رہے تھے۔ بالآخر ایک ٹکٹ ملا اور ٹرین کے انجن کے پاس یعنی بالکل آخری سیٹ ملی۔'
ابوزر نے مزید بتایا کہ وہ لاہور سے راوپنڈی تک ٹرین میں گئے۔ 'سفر اچھا تھا، لاہور ریلوے سٹیشن والوں نے ماسک کی سختی سے پابندی کروائی، سینیٹائزر بھی دیے مگر ایک چیز جو بری تھی وہ یہ کہ پورا راستہ بقرعید پر پھینکی جانے والی آلائشوں کی بدبو میری ہمسفر رہی جس سے مزا تھوڑا کرکرا ہوگیا۔'
انہوں نے بتایا کہ وہ راولپنڈی میں اپنے ایک دوست کے پاس ٹھہرے، جس کے بعد وہ اسلام آباد کے لیے ایک لوکل بس میں بیٹھے اور یہاں محسوس ہوا کہ کرونا وائرس کا خوف جیسے عوام کے دل سے اتر چکا ہے۔ 'کسی قسم کی کوئی احتیاط ہی نہیں دیکھی۔'
'میں اپنے بیگ پیک سمیت اسلام آباد اپنے دوست کے ہاں پہنچا اور پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کشمیر چلتے ہیں۔ چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں بکنگ کی کوشش کی مگر معلوم ہوا کہ سبھی بک تھے۔ بس ہلکے پھلکے سامان سمیت ایک خیمہ لیا، موٹر سائیکل پکڑی اور نکل پڑے۔'
ابوزر نے بتایا کہ راستے میں انہیں بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں ملی، بس جو کھانا لینا ہے وہ خریدیں اور چلتے بنیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے راستے میں کافی گاڑیاں دیکھیں جن کے مسافروں کو دیکھ کر معلوم ہوریا تھا کہ یا تو وہ اپنے پیاروں کے ساتھ سیر کو نکلے ہیں یا عید کی چھٹیاں منا کر گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔
ابوزر نے مزید بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ کشمیر سے آگے وہ کہاں جائیں گے مگر وہ 14 اگست سے پہلے تو واپس نہیں آنے والے اور یہ یوم آزادی بھی وہ لاہور سے باہر ہی گزاریں گے۔
ابوزر مادھو اکیلے نہیں ہیں جو سیر سپاٹے کے لیے لاک ڈاؤن کھلنے کا انتظار کر رہے تھے بلکہ ان جیسے اور بھی بہت سے ہیں۔ 'قراقرم کلب' نامی گروپ کے ارکان نے سیاحتی و تفریحی علاقوں کی جانب رواں دواں سیاحوں کے حوالے سے اپنے فیس بک پیج پر تصاویر اور ویڈیوز شئیر کیں، جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان راستوں پر شدید ٹریفک جام ہے۔
یہ تو لاک ڈاؤن کھلنے کے فوری بعد کے حالات ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی سیر کے لیے نہیں نکل سکتے اور وہ انتظار کر رہے ہیں 14 اگست کا کیونکہ اس بار یوم آزادی اپنے ساتھ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی بھی لا رہا ہے۔ ویسے بھی گذشتہ برسوں میں بھی اکثر لوگ یوم آزادی منانے کے لیے تفریحی مقامات پر چلے جاتے ہیں۔
نیازی بس سروس 99 کے ترجمان مہر خلیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ گذشتہ برسوں سے یوم آزادی پر ان کی بسوں کی بکنگ فل ہوتی ہے اور لوگ مری، ایبٹ آباد، اسلام آباد اور دیگر سیاحتی و تفریحی مقامات کے لیے نکلتے ہیں۔
مہر خلیل کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم بسوں میں ایس او پیز کا خیال کر رہے ہیں مگر بعض مسافر غصہ کر جاتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔' ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی 45 سیٹوں والی بسیں فل بک ہو رہی ہیں اور اب تو ایک سیٹ چھوڑ کر ایک سیٹ پر مسافر بٹھانے والی سختی بھی ختم ہو چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب محکمہ سیاحت پنجاب کے ترجمان عابد شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا 'حکومت کے لاک ڈاؤن کھولنے کے اعلان کے بعد محکمہ سیاحت پنجاب نے بھی مختلف شہروں میں محکمے کے زیر انتظام چلنے والے تفریحی مقامات کھول دیے ہیں۔ جن میں پتریاٹا چئیر لفٹ بھی شامل ہے اور لاہور کی ڈبل ڈیکر بس بھی۔ البتہ یہاں ایس او پیز پر سختی سے عمل کروایا جائے گا۔'
ان حالات کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے عید سے چند روز قبل حکومت نے جس طرح سے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا وہ یوم آزادی سے پہلے نہیں کیا جائے گا۔
یہی جاننے کے لیے ہم نے پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو صاف صاف لفظوں میں بتایا کہ '14 اگست کے لیے لاک ڈاؤن کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے البتہ ایس او پیز بنیں گے اور سڑکوں پر نوجوانوں کو ہلڑ بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'آزادی کا جشن تو منانا ہے اور جس طرح کا رش اس روز سڑکوں پر دیکھا جاتا ہے اس کے لیے بھی ایس او پیز جاری کریں گے جبکہ اس دوران بین الاضلاعی آمدورفت کو بھی بند نہیں کیا جائے گا۔