تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا کے لیے ایک صوتی پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی قید سے اپنے فرار کی روداد بیان کی ہے۔
احسان اللہ احسان نے اس پیغام میں اپنے فرار کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھنے کی بھی بات کی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس خط کا جواب نہیں ملا۔
احسان اللہ احسان کا گیارہ منٹ اور پچاس سیکنڈ دورانیہ کا آڈیو میسج پیر کی رات سات بجے ان کے نام سے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا گیا۔ اور تقریبا اسی وقت اس کا لنک احسان اللہ احسان کے نام سے موجود ٹویٹر ہینڈل پر بھی شیر ہوا۔ انہوں نے خود بھی اسے صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا۔
آڈیو پیغام میں سنی جانے والی آواز واقعی احسان اللہ احسان کی ہے یا نہیں اس بارے میں نہ تو حکومت اور نہ کسی اور آزاد ذرائع نے تصدیق کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے احسان اللہ احسان کے اس آڈیو بیان پر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا ردعمل حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم پاکستانی حکام نے فل الحال اس سلسلہ میں خاموش رہنے کو ترجیح دی۔
احسان اللہ احسان نے، جن کا اصلی نام لیاقت علی اور تعلق سابق قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی سے ہے، 2017 میں خود کو ایک معاہدہ کے تحت پاکستانی حکام کے حوالہ کیا تھا۔
اس سال فروری میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ اپنے فرار کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 12 جنوری (2020) کو وہ اپنے خاندان سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
پاکستانی حکام نے بعد میں سرکاری طور پر ان کے فرار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک آپریشن کے دوران بھاگنےمیں کامیاب ہوئے۔
حالیہ پیغام میں احسان اللہ احسان نے پاکستانی حکام کے اس دعویٰ کی تردید کی کہ وہ اس سال جنوری میں کسی حساس آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم میں ان کا عہدہ سیاسی تھا اور ان کی ذمہ داریوں میں میڈیا سے رابطہ کرنا شامل تھا۔ اس لیے ان کے پاس تنظیم کے خفیہ ٹھکانوں یا آپریشنز کی تفصیلات موجود نہیں تھیں۔
احسان اللہ احسان ابتدائی طور پر تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان رہ چکے ہیں۔ تاہم 2014 میں ملا فضل اللہ کے ٹی ٹی پی کے سربراہ مقرر ہونے پر انہوں نے اس گروہ سے علیحدگی اختیار کی اور سابق طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی کی سربراہی میں بننے والی جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کی۔ اور اس کے بھی ترجمان مقرر ہوئے۔
تاہم سکیورٹی تجزیہ کار برگیڈئیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ کا خیال ہے کہ احسان اللہ احسان فرار نہیں ہوئے بلکہ انہیں حراست سے بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’میرے خیال جس ایجنسی کے پاس وہ تھے اس کے لیے احسان اللہ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔‘
برگیڈئیر محمود شاہ نے انکشاف کیا کہ سکیورٹی ایجنسی اہلکاروں نے احسان اللہ کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ان سے بھی مشورہ کیا تھا کہ اسے کس طریقہ سے ہینڈل کیا جائے؟
میں نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ قبائلی جرگہ اور عمائدین کے ذریعہ سرنڈر کروایا جائے اور ان کو ضامن بنایا جائے۔ یہی اس کا صحیح اور بہتر طریقہ ہے۔
برگیڈئیر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احسان اللہ اپنے گروپ کا کمانڈر تھا نہ اس کے پاس کوئی اہم معلومات تھیں۔ اسی لیے وہ سکیورٹی ایجنسی کے لیے بےکار ثابت ہوا بلکہ ایک بوجھ بن کر رہ گیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’میرا خیال ہے کہ اس کے غیر اہم پوزیشن کی وجہ سے اسے بھاگنے دیا گیا۔ ورنہ کوئی کیسے کسی ایجنسی کی حراست سے فرار ہو سکتا ہے۔‘
صحافی اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا اس سلسلہ میں کہنا تھا کہ حکومتی اداروں نے احسان اللہ احسان سے فائدہ اٹھایا۔ تاہم ان کا فرار حکومت کے لیے خفت کا باعث بھی بن رہا ہے۔
احسان اللہ کیسے فرار ہوئے؟
احسان اللہ احسان کا دعویٰ ہے کہ انہیں پشاور کے شامی روڈ پر واقع جس سیف ہاؤس میں رکھا گیا تھا وہاں آتے ہی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں سے نکلنا آسان ثابت ہو گا اور انہوں نے فرار کا پلان بنانا شروع کر دیا تھا۔
منصوبہ بندی میں انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان کے فرار کا علم کافی دیر کے بعد محافظوں کو ہو تاکہ انہیں محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع مل جائے۔
بقول ان کے اس سیف ہاؤس میں محافظ مین گیٹ کے قریب ایک کوارٹر میں رہتے تھے جو مکان کے رہائشی حصہ سے دور تھا۔ ’صرف ایک حوالدار میری ضروریات پوری کرنے کے لیے رابطہ میں رہتا تھا۔‘
احسان کا مزید کہنا تھا کہ فرار ہونے سے دو روز قبل انہوں نے مکان کے پچھلے دروازہ کو لگا تالا توڑا اور مین گیٹ پر لگی گھنٹی بھی خراب کر دی۔ ’اس سال بارہ جنوری کی شام سیف ہاؤس سے نکلنے سے کچھ دیر قبل انہوں نے حسب معمول رہائشی حصہ کے سامنے کے تمام دروازے بند کر دیے تاکہ گارڈز جو اس وقت اپنے کوارٹر میں کھانا کھا رہے تھے رہائشی حصہ میں دیکھ یا آ نہ سکیں۔‘
دروازے بند کرنے کے بعد انہوں نے کھانا کھایا اور ان کے پاس موجود موبائل کی مدد سے ایک آن لائن ٹیکسی بک کی۔ ’میں عشا کے وقت ہ گھر کے پچھلے دروازہ سے باہر نکلا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر حاجی کیمپ اڈہ پہنچا جہاں انہسے میں نے ایک دوسری گاڑی لی۔ 20 گھنٹوں کے سفر کے بعد میں پاکستان کی حدود سے باہر نکل گیا۔‘
تقریبا پوری رات کے سفر کے بعد ایک محفوظ مقام سے انہوں نے ایک پاکستانی افسر کو واٹس ایپ پر کال کی تاکہ معلوم کرسکیں کہ انہیں ان کے فرار کا خبر ملی ہے یا نہیں۔ ’مجھے معلوم ہوا کہ ابھی تک میرے فرار کا کسی کو علم نہیں ہوا تھا۔‘
کیوں فرار ہوئے؟
ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان نے اپنے پیغام میں ان تمام لوگوں بشمول سرکاری اہلکار اور سیاسی اور مذہبی شخصیات کے نام لیے جن کے ذریعہ ان کا ایک سکیورٹی ایجنسی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے آپ کو پاکستانی حکام کے حوالہ کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کا پاس نہیں رکھا گیا اور کچھ عرصہ بعد ہی ان سے مختلف مطالبات کیے جانے لگے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کی شکایت انہوں نے معاہدہ کی ضامن شخصیت کو بھی دی۔ لیکن انہوں نے کسی قسم کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کی۔
احسان نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر ان سے ایک ڈیٹھ سکواڈ کی سربراہی کروانے کی کوشش کا الزام بھی لگایا۔ ان کے مطابق اس ڈیتھ سکواڈ میں حکومت کے حمایتی عسکریت پسندوں کو شامل کیا جانا تھا اور اس کا کام ملک دشمن عناصر کا قلع قمع تھا۔ ’ان ملک دشمن عناصر کی ایک فہرست بھی فراہم کی گئی جن میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بشمول صحافیوں کے نام شامل تھے۔‘
احسان اللہ احسان نے دعوی کیا کہ انہوں نے اس ڈیتھ سکواڈ کی سربراہی کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ایک پرامن زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ اور اسی مقصد کے لیے انہوں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔
اس سلسلے میں پاکستانی حکام خصوصا فوجی حکام سے رابطے کی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی۔
کہاں رکھا گیا؟
احسان اللہ احسان نے کہا کہ ان کے سرنڈر کے بعد پہلے 18 ماہ انہیں پشاور میں جلیل روڈ پر واقعے ایک سیف ہاؤس میں رکھا گیا جس کے قریب ایک گرجا گھر اور سینٹ جانز کیتھڈرل سکول بھی ہے۔ انہوں بتایا کہ ان کا بیٹا عباس خان اسی قریبی سکول پڑھنے جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احسان اللہ احسان نے اپنے آڈیو پیغام میں سیف ہاؤس، چرچ اور سکول جس علاقہ میں موجود تھے وہاں کی گوگل میپس سے حاصل کی گئی تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔
احسان اللہ احسان نے بتایا کہ ان کے احتجاج کرنے پر اٹھارہ مہینے بعد انہیں پشاور کے شامی روڈ پر واقع ایک بڑے مکان میں منتقل کیا گیا۔ اپنے پیغام میں احسان اللہ احسان نے اس مکان کی، جو ان کے مطابق کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا، تعمیر کا سال اور مالکن کا نام بھی بتایا۔ یہاں دوبارہ انہوں نے گوگل میپس کے ذریعہ اس مکان کا صحیح مقام واضح کرنے کی کوشش کی۔
معاہدہ میں کیا تھا؟
احسان اللہ احسان نے سکیورٹی ایجنسی کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’طے پایا تھا کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ پرانے کیسز واپس لیے جائیں گے۔ مجھے جیل یا ٹارچر سیل میں نہیں رکھا جائے گا۔ میری مالی مدد کی جائے گی اور مجھ پر کوئی معاشرتی پابندی نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں چیزیں بہتر تھیں تاہم بعد میں ان سے کئی مطالبات کیے جانے لگے جو ان کے لیے ماننا ممکن نہیں تھے۔ ’میرے انکار پر میرے ساتھ سختی شروع کر دی گئی اور مجھے کہا گیا کہ یہ کرو گے تو تمھارے باہر نکلنے کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ ورنہ یہی پڑے رہو گے۔‘
انہوں نے سکیورٹی اداروں پر ان کے والد، بھائی، چچا زاد اور دوسرے رشتہ داروں کو گرفتار کرنے کا الزام لگایا۔
اپنے رشتہ داروں کی گرفتاریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھنے کی بات بھی کی تاہم انہیں جواب نہیں ملا۔
احسان اللہ احسان کا فرار ابھی بھی ایک معمہ ہے۔ لوگ اکثر یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیسے انتہائی خطرناک شخص کو اتنی آسانی سے جانے دیا گیا۔