پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی سکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کر لیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ اور جسٹس اعجاز انور نے جمعرات کو درخواست کی سماعت کی، جو پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سرکردہ رکن فضل خان نے دائر کی تھی۔
درخواست میں ڈی جی آئی سی آئی، آرمی چیف، سیکرٹری وزارت داخلہ، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، سیکرٹری قانون اور سیکرٹری دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ فضل خان پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں مارے جانے والے بچوں میں شامل صاحبزادہ عمر خان کے والد بھی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کو طلب کیا گیا تھا اور وفاقی اور صوبائی حکومت سے دو ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی حکومت کے مطابق احسان اللہ احسان 2017 میں سکیورٹی اداروں کے سامنے سرینڈر کر چکے تھے اور وہ پچھلے تین سال سے ان کی تحویل میں تھے۔ احسان نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ وہ سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔
تاہم، رواں مہینے کے دوسرے ہفتے میں ان کے فرار کی خبر سامنے آئی تھی۔ ٹوئٹر پر احسان اللہ احسان کے نام سے ایک اکاؤنٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستانی اداروں کے تحویل سے فرار ہوگئے ہیں۔
دو ہفتوں تک حکومت کی طرف سے اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں ہوا لیکن گذشتہ ہفتے وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں ان کے فرار ہونے کی تصدیق کی تھی۔
فضل خان نے بتایا کہ انہوں نے آج تفصیل سے عدالت کو کیس کی نوعیت کے بارے میں بتایا، جس پر عدالت نے حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کو اس واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کروانے دی جا رہی۔
انہوں نے کہا: ’ہم نے ہمیشہ چاہا کہ احسان جس تنظیم سے بھی تعلق رکھتے ہوں، انہوں نے آرمی پبلک سکول سانحے کی ذمہ داری قبول کی تھی، لہٰذا ان کو اس کو سزا ملنی چاہیے۔‘