امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور کاملہ ہیرس وائٹ ہاؤس پہنچنے کے لیے مطلوبہ 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی سیاہ فام خاتون نے نائب صدر کی امیدار کی حیثیت سے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور جیت بھی گئیں۔
کاملہ ہیرس نے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی جیت خواتین کے لیے آغاز ہے۔
انہوں نے کامیابی کے بعد سنیچر کو اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ میں اس عہدے پر آنے والی پہلی خاتون ہوں گی، میں آخری نہیں ہوں گی۔‘
’آج رات ہمیں دیکھنے والی ہر نوجوان لڑکی یہ دیکھ رہی ہے کہ یہ ممکنات کا ملک ہے۔‘
کاملہ ہیرس پرائمریز کی دوڑ میں جو بائیڈن کی حریف تھیں اور ان کی جانب سے اپنی سابق حریف کو بطور نائب صدر منتخب کرنا بہت سے سیاسی پنڈتوں کے لیے حیران کن فیصلہ تھا۔
جو بائیڈن کے اس اعلان نے نومبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیموکریٹک کیمپ کی ایک ماہ سے جاری تلاش کو بالآخر ختم کر دیا تھا۔
77 سالہ بائیڈن نے کمالہ ہیرس کو منتخب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے اب فخر ہے کہ کاملہ ہیرس اس مہم میں شراکت دار کی حیثیت سے شامل ہوں گی۔‘
سیاسی مبصرین نے اس وقت کہا تھا کہ 55 سالہ ہیرس بائیڈن کی نائب کی حیثیت سے تقریری ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے ان انتخابات میں گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہیں جو خواتین، نوجوانوں اور نواحی علاقوں میں رہنےوالے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کر سکتی ہیں اور ایسا ہی ہوا ہے۔
کاملہ ہیرس 1984 میں ڈیموکریٹک جیرالڈین فریرو اور 2008 میں ریپبلکن سارہ پیلن کے بعد کسی بڑی جماعت کے لیے تیسری خاتون اور پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
20 اکتوبر 1964 کو ریاست کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں پیدا ہونے والی کاملہ ہیرس 2016 میں امریکی سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ وہ 2011 سے 2017 تک کیلیفورنیا میں پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔
اس دوران انہوں نے منشیات کی سمگلنگ اور جنسی تشدد کے حوالے سے اپنے سخت مواقف کی وجہ سے شہرت پائی۔
ان کے والد امریکہ میں سیاہ فام تارک وطن تھے جن کا تعلق غرب الہند سے تھا جب کہ ان کی والدہ بھارت سے تھیں۔
کاملہ ہیرس نے 1986 میں معروف امریکی یونیورسٹی ہاورڈ سے پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں گریجویشن کیا اور پھر 1989 میں ہیسٹنگز کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
وہ کیلیفورنیا کی اٹارنی جنرل کے طور پر منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون تھیں اور امریکی سینیٹ میں خدمات انجام دینے والی دوسری سیاہ فام خاتون ہیں جن کی جڑیں جنوبی ایشیا سے ملتی ہے۔
بطور اٹارنی جنرل وہ کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں یہاں تک کہ بعض معاملات میں انہوں نے سابق صدر باراک اوباما کے فیصلوں کو بھی مسترد کر دیا۔ 2012 میں ڈیموکریٹس کی نیشنل کانفرنس میں دبنگ خطاب سے انہوں نے سیاسی طور پر مقبولیت حاصل کی تھی۔