شام میں داعش میں شمولیت اختیار کرکے نوجوان لڑکیوں کو شدت پسند تنظیم میں بھرتی کرنے والی ایک برطانوی خاتون نے درخواست کی ہے کہ انہیں واپس برطانیہ جانے دیا جائے تاکہ وہ وہاں ’نارمل زندگی‘ گزار سکیں۔
طوبیٰ گوندل کی یہ اپیل ان کے ایک سابق ٹوئٹر بیان کی بالکل مخالف ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ جھوٹ ہے کہ مہاجرین، ہجرت یعنی داعش میں شمولیت پر نادم ہیں اور شدت سے واپسی کے خواہش مند ہیں۔‘
انہوں نے سوشل میڈیا کو دیگر لڑکیوں کو داعش میں شمولیت کی غرض سے اُکسانے کے لیے استعمال کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ دہشت گرد حملوں پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ ’کفار‘ کی مذمت بھی کرتی رہی ہیں۔
امِ مُتھانہ البرٹینیا کے نام سے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انہوں نے ایک مرتبہ اپنی ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ اے کے 47 پستول تھامے نظر آئیں اور ساتھ میں انہوں نے لکھا، ’زندگی جیتے ہوئے۔‘
2015 میں کی گئی ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے ایک خودکش جیکٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا، ’میں یہاں مرنے کے لیے آئی ہوں۔ میں اس وقت تک نہیں جاؤں گی، جب تک میں وہ نہ حاصل کرلوں، جس کے لیے میں یہاں آئی ہوں یعنی شہادت۔‘
انہوں نے مزید لکھا، ’میرے اردگرد ہو کوئی شہادت کا درجہ حاصل کر رہا ہے، میری باری کب آئے گی؟‘
تاہم داعش کی آخری محفوظ پناہ گاہ سے ترکی کی سرحد فرار ہوتے وقت جب انہیں کرد فورسز نے پکڑا تو طوبیٰ گوندل نے دعویٰ کیا کہ وہ کسی کے لیے ’خطرہ‘ نہیں ہیں۔
25 سالہ طوبیٰ کو ان کے بچوں کے ساتھ عین عیسیٰ کیمپ میں رکھا گیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بچوں کی صحت کی فکر ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں شمیمہ بیگم کے بچے سمیت متعدد بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔
روجاوا انفارمیشن سینٹر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ داعش کو چھوڑنا ان کے لیے ’باعث سکون‘ تھا، جہاں خوراک کی بھی قلت تھی اور مسلسل بمباری اور گولیوں کا بھی سامنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ’خواتین اور بچے اس کا شکار ہوئے، وہ ایک بدترین جگہ تھی اور وہاں سے نکلنا بھی مشکل تھا۔۔۔ یہ ایک مشن تھا کہ فرار کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے یا کسی ایسے سمگلر سے رابطہ کیا جائے جو آپ کی مدد کرسکے۔‘
گولڈ سمتھ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ طوبیٰ نے بتایا کہ وہ فرانس میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن تین سال کی عمر کے بعد ان کی پرورش لندن میں ہوئی۔
طوبیٰ گوندل کے مطابق ان کے پاس ’برطانیہ کی مستقل شہریت‘ ہے لیکن فرانسیسی پاسپورٹ بھی ہے، جسے انہوں نے اپنے بچے کی نیپی میں سلائی کرکے چھپایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’میں خود کو برطانوی محسوس کرتی ہوں، لیکن برطانویوں نے ہمیں رکھنے سے انکار کردیا ہے۔‘
طوبیٰ نے بتایا کہ انہوں نے خبرسنی ہے کہ وزارت داخلہ نے ان کی ساتھی شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت کی درخواست مسترد کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’میں برطانوی عوام کو جانتی ہوں، وہ خوفزدہ ہیں، وہ ہم سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن انہیں ہم سے نمٹنا پڑے گا۔‘
طوبیٰ کے مطابق: ’ہم اپنی باقی زندگی اس کیمپ میں نہیں گزار سکتے۔ ہم ان کے معاشرے کے لیے خطرہ نہیں ہیں، ہم صرف دوبارہ سے معمول کی زندگی کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ اگر میں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، اگر میں نے چار سال کے دوران شام میں کوئی نقصان پہنچانے والا کام نہیں کیا تو میں برطانویوں کے لیے کس طرح خطرے کا باعث بن سکتی ہوں؟
ہینری جیکسن سوسائٹی میں مرکز برائے بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی ڈائریکٹر نکیٹا ملک کے مطابق طوبیٰ اور دیگر خواتین بھرتی کار، داعش کی ریاست کے تشکیل کے منصوبے میں ’اہم‘ تھیں۔
دی اںڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’یہ خواتین دیگر خواتین تک پہنچنے اور پروپیگنڈے کے لیے نہایت اہم تھیں، جس کے ذریعے داعش خواتین کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہوئی۔‘
یہ دیگر خواتین کے سوالات کے جواب دینے، خلافت میں زندگی گزارنے اور لاجسٹک وغیرہ کے مسائل حل کرنے میں بھی مددگار تھیں۔
طوبیٰ گوندل نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کو ہلاک کیا جاچکا ہے جبکہ وہ بھی جنگوں کے دوران زخمی ہوچکی ہیں، جس کے بعد وہ الباغوز فرار ہونے کے لیے سمگلروں کو پیسے دینے سے قبل ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں منتقل ہوتی رہیں۔
2015 میں شام جانے کے لیے برطانیہ چھوڑنے سے قبل انہوں نے ٹویٹ کی تھی: ’کفار میڈیا اس حوالے سے جھوٹ کی تشہیر کر رہا ہے کہ مہاجرین، ہجرت پر نادم ہیں اور شدت سے واپسی کی خواہش رکھتے ہیں۔‘
تاہم اب طوبیٰ گوندل اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرچکی ہیں، جس کے ذریعے ان کی بنیاد پرستی، داعش کے پروپیگنڈے کی ترویج، لوگوں کی ہلاکت اور دہشت گرد حملوں پر جشن اور اُن دعووں کا اظہار ہوتا تھا کہ خواتین کے چہرے دکھانا اسلام کے خلاف ہے۔
ایک مرتبہ انہوں نے اپنے فالوورز سے پوچھا: ’اسلامی ریاست اور کافر ریاست، آپ کس کے ساتھ ہیں؟‘
شام پہنچنے کے بعد طوبیٰ نے اے کے 47 اٹھائے، گاڑی میں اور دیگر خواتین کے ساتھ گھومتے پھرتے ہوئے تصاویر شیئر کیں۔
وہ زور دیتی نظر آئیں: ’بہنو آزادی کی سرزمین پر آجاؤ! ہمارے پاس آپ کے لیے سب کچھ ہے۔‘
ان کے مطابق لڑکیاں انہیں ذاتی میسجز کرکے مشورہ لیتی تھیں کہ کس طرح وہ مغربی معاشرے سے نکل کر شام پہنچ سکتی ہیں۔
نومبر 2015 میں پیرس حملوں کے بعد انہوں نے لکھا تھا: ’کاش میں اپنی آنکھوں سے یرغمالیوں کے گلے کٹتے ہوئے دیکھ سکتی، یہ بہت خوبصورت ہوتا۔‘
ایک اخبار کی خفیہ تفتیشی ٹیم نے طوبیٰ کو ایک نوعمر برطانوی لڑکی کو سوشل میڈیا پر داعش میں شمولیت کے لیے تیار کرتے ہوئے پکڑا تھا، جس میں سوئٹزرلینڈ اور استنبول کے ذریعے داعش تک پہنچنے کا تفصیلی منصوبہ شامل تھا۔
طوبیٰ کی ایک دوست نے میل آن سنڈے نامی اخبار کو بتایا، ’وہ سکول میں بہت باغی تھی، جو سگریٹ نوشی بھی کرتی تھی اور جس کے خفیہ مرد دوست بھی تھے، تاہم 2014 میں وہ مذہبی ہونا شروع ہوگئی، اس نے ٹوئٹر پر قرآنی آیات شیئر کرنا شروع کردیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی۔‘
برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ انفرادی کیسز کے حوالے سے تبصرہ نہیں کرتے، تاہم ان کے مطابق عراق اور شام سے واپس آنے والوں سے تفتیش کی جائے گی اور انہیں عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ترجمان نے کہا: ’برطانیہ نے شام اور عراق کے سفر کے حوالے سے کافی سالوں سے ایڈوائزری جاری کر رکھی ہے۔ ہمارے پاس اختیارات ہیں کہ ہم برطانیہ واپس آنے والے افراد کو روک سکیں۔ جو بھی واپس آنا چاہتا ہے، انہیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ انہیں اس حوالے سے تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ انہوں نے سنگین جرائم تو نہیں کیے یا وہ قومی سلامتی کے لیے کسی قسم کا خطرہ تو نہیں ہیں۔‘
حالیہ برسوں میں برطانوی حکومت 50 سے زائد افراد کی برطانوی شہریت ’عوامی مفاد کے تحت‘ منسوخ کرچکی ہے اور شامی کیمپوں سے آنے والوں کی مدد کے لیے اس نے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔