امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایک 'تاریخی'معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور اسرائیل اپنے تعلقات کو رسمی طور پر معمول پرلے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیل اس مقبوضہ زمین کو اپنا حصہ نہیں بنائے گا جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس اعلان سے متحدہ عرب امارات ایسا کرنے والا پہلا خلیجی اور صرف تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہوں گے۔ اس سے پہلے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ فعال سفارتی تعلقات قائم ہیں۔
اس بات پر فلسطینی رہنما حماس نے غصے کا اظہار کیا تھا۔ حماس ایک عسکریت پسند گروپ ہے جس کی غزہ پر حکومت ہے۔ اس نے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔
تاہم ٹرمپ نے'تاریخی پیش رفت' کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں امن کو فروغ ملے گا۔ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ'تعاون کو تیز کرنا اور وسیع کرنا شروع کر دے گا۔'
انہوں نے کہا: 'اب جب کہ برف ٹوٹ چکی ہے مجھے امید ہے کہ مزید عرب اور مسلمان ملک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔' اماراتی رہنما شیخ محمد بن زید نے بھی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: 'اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے ساتھ ایک فون کال کے دوران ایک معاہدے پر اتفاق ہوا ہے جس کے تحت مزید فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنا روک دیا جائے گا۔'
انہوں نے مزید کہا: 'متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے تعاون اور دوطرفہ تعلقات کے قیام کے لیے ایک روڈمیپ تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔' ایک خلیجی ریاست کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے نومبرمیں ہونے والے ایک صدارتی انتخاب سے پہلے ٹرمپ کو ایک منفرد اور ممکنہ طورپر طاقت ور سفارتی فتح حاصل ہو گئی ہے۔
یہ فتح اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدہ کروانے کی ان کوششوں کے بعد ملی ہے جو مسائل کا شکار ہونے کے بعد ختم ہو گئی تھیں۔ فلسطینی قیادت نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مؤثر انداز میں منقطع کر لیے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی ٹویٹ میں معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ'تاریخی دن'ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاہدے سے اسرائیلی وزیراعظم کی بنیامین نتن یاہو کے لیے حمایت میں اضافہ ہوگا جو طویل عرصے سے فخر کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلیجی ممالک کے ساتھ پس پردہ قریبی تعلقات قائم ہیں۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اپنے ان حامیوں کو جواب دینا ہو گا جنہوں نے ان پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کیا جائے حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ غیرقانونی ہے۔
حالیہ انتخابات سے پہلےاسرائیلی وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقے اسرائیل میں شامل کرنے کا کام فوری طور پر آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے ٹرمپ کے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا تھا جس کے تحت وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک تہائی حصے پر حاکمیت کا اعلان کر سکیں گے۔ ان حصوں میں مشرقی بیت المقدس اور غزہ شامل ہیں، جن کے حوالے سے فلسطینیوں کو امید ہے کہ وہ ان کی مستقبل کی ریاست کا حصہ ہوں گے۔
فلسطینی قیادت نے غصے میں آ کر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے تھے اورایک موقعے پر اسرائیل کے ساتھ سلامتی میں تعاون بند کر دیا تھا۔
امریکہ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں وفود براہ راست پروازوں، سکیورٹی، مواصلات، توانائی، سیاحت اور صحت کے شعبے میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارت خانوں کے افتتاح اور سفارت کاروں کی تعیناتی پر بھی جلد فیصلہ متوقع ہے۔ اس حوالے سے وائٹ ہاوس میں ایک تقریب عنقریب منعقد کی جائے گی۔
حالیہ انتخابات سے قبل نتن یاہو نے فلسطینی علاقوں کے انضمام سے متعلق جارحانہ مہم چلائی تھی اور انہوں نے اس حوالے سے صدر ٹرمپ کی حمایت کو خوش آمدید کہا تھا۔ یاد رہے ان علاقوں میں مستقبل کی فلسطینی ریاست میں شامل علاقے بھی شامل تھے۔
جس کے جواب میں فلسطینی قیادت نے اجتجاجاً صدر ٹرمپ سے تمام تعلقاقت ختم کرتے ہوئے اسرائیل سے سکیورٹی تعاون ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
جمعرات کو دونوں فلسطینی دھڑوں نے صدر ٹرمپ کی تجویز کردہ ڈیل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ بیان پڑھتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان ابو ردینیہ کا کہنا تھا کہ 'یہ یروشلم، الاقصیٰ مسجد اور فلسطینی مقصد سے دھوکہ ہے۔
سینیئر فلسطینی اہلکار حنان اشروی کا کہنا ہے فلسیطنی قیادت کو اس معاہدے کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور ہم اس سے مکمل طور پر بے خبر تھے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا 'اسرائیل کو اس بات کا اعلان نہ کرنے پر نوازا گیا ہے کہ وہ ان فلسیطینی علاقوں پر قبضہ کرے گا جن پر اس کا غیر قانونی قبضہ ہے اور وہ ایسا ہی کرتا رہا ہے۔'
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو ظاہر کر دیا ہے۔
غزہ پر حکومت کرنے والے مسلح گروہ حماس نے متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کو 'فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر کا وار' قرار دیا۔ اسرائیل کے حریف ایران کے انقلابی گارڈز سے تعلق رکھنے والی نیوز ایجنسی تسنیم نے بھی اس معاہدے کو ' شرم ناک' قرار دیا ہے۔
اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ 'براہ راست پروازیں خطے میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیں گی۔ عوام کے درمیان رابطے اور ٹیکنالوجیکل تعاون بڑھے گا۔'
واشنگٹن کے لیے اماراتی سفیر یوسف العتیبہ کا کہنا ہے کہ 'یہ خطے کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے اردن کے استحکام کو مزید مضبوط کرے گی۔'
اس علان کو دنیا بھر کے کئی رہنماوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ مصری صدر عبدل فتح السیسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاہدے میں بہت دلچسپی لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم خطے میں استحکام کے لیے کوششیں کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے اس معاہدے کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم مشترکہ خطرات سے نمٹنے لیے متحد ہیں، ہم چھوٹے ملک ہی ہیں لیکن ہم مضبوط ہیں۔ اس معاہدے سے قبل صرف مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات تھے۔
مصر نے اسرائیل سے1979 میں جبکہ اردن نے 1994 میں معاہدے کیے تھے۔ موریطانیہ نے اسرائیل کو 1999 میں تسلیم کر لیا تھا لیکن 2009 میں غزہ کی جنگ کے موقعے پر اسرائیل سے تعلقات ختم کر دیے تھے۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ علاقے مستبقل کی فلسیطنی ریاست کا حصہ ہیں لیکن اسرائیل ان علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے گذشتہ دہائیوں کے دوران یہاں پر ہزاروں بستیاں تعمیر کر چکا ہے۔
خبر رساں ایجنسیوں کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ
© The Independent