14 اگست کے موقعے پر جہاں دوسری تقریبات ہوتی ہیں، وہیں صدرِ پاکستان اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات کو ان کی نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں اعزازات سے نوازتے ہیں۔
صدر عارف علوی نے جمعے کو 184 پاکستانی اور غیر ملکی شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا، جنہیں 23 مارچ، 2021 کو ایوانِ صدر میں ایک تقریب کے دوران یہ اعزازات دیے جائیں گے۔
ان شخصیات میں چینی کاروباری شخصیت اور علی بابا کے بانی جیک ما بھی شامل ہیں، جنہیں ’پاکستان کے لیے خدمات‘ کے عوض ہلالِ قائداعظم سے نوازا گیا ہے۔ آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ جیک ما نے کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں پاکستان کو حفاظتی سامان عطیہ کیا تھا۔ آج پاکستان نے اس کا بدلہ چکا دیا۔
کون سا انعام بڑا ہے کون سا چھوٹا؟
اس سے پہلے کہ ہم انعامات اور اعزازات پانے والے دوسرے افراد کا ذکر کریں، یہ بتانا ضروری ہے کہ ستارۂ امتیاز، ہلالِ قائداعظم، تمغۂ امتیاز وغیرہ میں کیا فرق ہے اور ان کی اہمیت کی درجہ بندی کیا ہے؟
واضح رہے کہ 14 اگست کو سول اعزازات بٹتے ہیں، نشانِ حیدر وغیرہ فوجی اعزازات ہیں جو الگ دیے جاتے ہیں۔ ان سول اعزازات میں سب سے بڑا اعزاز جو حکومت پاکستان عطا کرتی ہے وہ نشان ہے۔ اس کے بعد ہلال، پھر ستارہ اور آخر میں تمغے کا نمبر آتا ہے۔
یہ تو چار بڑے شعبے ہو گئے۔ آگے چل کر ان میں سے ہر شعبے کے اندر ذیلی شعبے بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر نشان کو لے لیں، تو اس میں پہلے نمبر پر نشانِ پاکستان، اس کے بعد نشانِ شجاعت، پھر نشانِ امتیاز، پھر نشانِ قائداعظم اور آخر میں نشانِ خدمت۔
اسی طرح ہلال اور ستارہ کے اندر بھی یہی پانچ شعبے ہیں، البتہ تمغے کے اندر شعبوں کی تعداد چھ ہے اور اس میں تمغۂ حسنِ کارکردگی یا پرائیڈ آف پرفارمنس بھی شامل ہے۔
کس کس کو انعام ملا؟
اس تفصیل کے بعد آتے ہیں آج عطا ہونے والے انعامات کی طرف۔ سب سے بڑا انعام نشان ہے، جس کے تحت نشانِ امتیاز آتا ہے جو فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو ملتا ہے۔ اس زمرے میں اعزاز پانے والوں میں زندہ فنکاروں میں سب سے نمایاں نام عابدہ پروین کا ہے۔ یاد رہے کہ 2012 میں عابدہ پروین کو ہلالِ امتیاز مل چکا ہے لیکن اب حکومت نے ضروری سمجھا کہ انہیں اس سے بڑا اعزاز یعنیٰ نشان عطا کیا جائے۔ انعامات کی دنیا میں یہ کوئی انہونی بات نہیں، ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کو یہ یہی ایوارڈ یعنی نشانِ امتیاز دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب گذشتہ برس اپریل میں فوت ہو گئے تھے، تاہم وہ ہر لحاظ سے اس ایوارڈ کے مستحق ہیں کہ ان کا نام اردو کی تاریخ کے پانچ چوٹی کے محققین میں لیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کیا؟ شاکر علی اور صادقین بھی وصول کنندگان کی فہرست میں شامل ہیں۔ شاکر علی پاکستانی تاریخ کے چوٹی کے مصور تھے اور انہیں آنجہانی ہوئے 45 سال گزر چکے ہیں۔
اسی طرح صادقین بھی 1987 میں رخصت ہو گئے تھے۔ یہ دونوں فنکار یقیناً بڑے سے بڑے ایوارڈ کے مستحق ہیں، بلکہ ایوارڈ کے لیے یہ اعزاز ہے کہ ان سے منسوب ہوں۔ اس سے قبل صادقین کو تمغہ، ستارہ اور ہلال مل چکے تھے۔ اب نشان ملنے کے بعد وہ چاروں انعامات پانے والے پاکستان کے پہلے فنکار بن گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد نشانِ امتیاز پانے والوں میںاحمد فراز کا نام ہے۔ انہیں بھی دنیا سے کوچ کیے 12 برس بیت گئے ہیں، لیکن خیر، دیر آید درست آید۔۔
اگلا درجہ ہلال کا ہے، جس میں چینی کاروباری شخصیت اور علی بابا کے بانی جیک ما کو نوازا گیا ہے اور اس کی وجہ کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
اب باری ہے ستارۂ شجاعت کی جو 22 شخصیات کو عطا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آتا ہے ستارۂ امتیاز اور اسے حاصل کرنے والی شو بز کی شخصیات میں سرِ فہرست بشریٰ انصاری، طلعت حسین، فاروق قیصر اور نعیم بخاری ہیں۔ اس کے علاوہ کرکٹر عبدالقادر کو بھی بعد از مرگ اسی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
اس سے نیچے جو ایوارڈ آتا ہے وہ پرائیڈ آف پرفارمنس ہے۔ اس کے حصول کنندگان میں مولانا طارق جمیل ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کے علاوہ یہ انعام پانے والوں میں شو بز سے تعلق رکھنے والے نعمت سرحدی، صائمہ شاہ عرف ریشم، ہمایوں سعید، سکینہ سموں، مہ جبین قزلباش، محمد علی شہکی، ثریا خان، کرشن جی، علی ظفر اور حنا نصراللہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آج کے دور کے صفِ اول کے ناول نگار مرزا اطہر بیگ کو بھی تمغہ دیا گیا ہے، جو خوشی کی بات تو ہے، البتہ ہمارا اپنا خیال ہے کہ ’غلام باغ،‘ ’صفر سے ایک تک‘ اور ’حسن کی صورتِ حال‘ جیسے ناولوں کے خالق مرزا صاحب کے لیے تمغہ چھوٹا انعام ہے۔ وہ نشان نہیں تو کم از کم ہلال کے ضرور مستحق تھے۔