تمام پاکستانیوں نے 14 اگست کو یوم آزادی عقیدت و احترام سے منایا ہوگا اور یہ عہد بھی ضرور کیا ہوگیا کہ وہ پاکستان کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے اور اس کا مقام اور نام دنیا میں روشن کریں گے۔
لیکن بقول جلیلہ: 'جب ہم پاکستان کی نظریاتی اساس کی بات کریں تو نہایت دکھ کی بات ہے کہ جہاں ہمارا ماضی اتنا اچھا تھا، ہمارا حال اتنا ہی خطرناک حد تک عدم برداشت، تعصب اور رجعت کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا ازالہ ہم سب کو مل کرنا ہوگا اور جس کے لیے کام کرنا بہت ضروری ہے۔
جلیلہ کہتی ہیں کہ 'قائداعظم نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ سب لوگ اپنے مذہبی عقائد کا پرچار کرنے میں آزاد ہیں اور ریاست کا کوئی کام نہیں ہے کہ وہ ان معاملات میں کوئی کردار ادا کرے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'تاہم بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں ہر طبقہ دوسرے طبقے کو کافر یا غدار قرار دیتا ہے یا پھر دائرہ اسلام سے خارج کرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح مذہبی اقلیتیں خوف کی زندگی گزار رہی ہیں، فرقہ واریت اپنے عروج پر ہے اور غربت بڑھ گئی ہے، طبقہ اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔'
بقول جلیلہ جناح کی اسی تقریر میں بلیک مارکیٹنگ اور رشوت کے خلاف اور قانون کی بالادستی کی بات ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے قانون کی بالادستی کی بات ہم کہاں پر کریں؟ جہاں پر ماورائے عدالت قتل ہوں، جبری گمشدگیاں ہوں اور جہاں جنسی بنیاد پر تفریق ہو، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح تمام طبقے خوف کی فضا میں ہیں۔
ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ 'ناامیدی کی بات نہیں ہے، یہ ہمارا ملک ہے، ہم اپنا ملک بدل نہیں سکتے، لیکن اس کو بہتر ضرور کرسکتے ہیں۔'