سب سے پہلے سینیٹر حاصل بزنجو کی موت پر میں دکھ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک نفیس انسان اور بااصول سیاست دان تھے۔ پاکستان اور بلوچستان دونوں کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہے۔
ان کی نیشنل پارٹی دو سال صوبائی حکومت میں رہی اور اس قلیل عرصے میں انہوں نے تمام صوبوں سے پہلے بلدیاتی الیکشن کروائے اور علیحدگی پسندوں سے مذاکرات شروع کیے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر نیت اور صلاحیت ہو تو تمام مشکلات کے باوجود بھی اچھی حکومت کی جا سکتی ہے۔
یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
ہماری چھوٹی سیاسی پارٹیوں میں جمہوری روایات اور صلاحیت زیادہ نظر آتی ہے جبکہ بڑی پارٹیاں طالع آزماؤں کا مسکن ہیں۔ 2018 کے سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے لیے میں نے پارٹیوں کو ان کا نام تجویز کیا تھا لیکن مسلم لیگ ن نے راجہ ظفرالحق کو نامزد کیا اور پیپلز پارٹی نے سیاسی انجینیئرنگ کے امیدوار کی حمایت کی۔ افسوس کہ پاکستان اس قابل سیاست دان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکا۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کسی ملک کے دشمن ہر وقت اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی فوجی صلاحیت کیا ہے اور کیا وہ اسے اپنے خارجہ معاملات میں بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے یا نہیں۔
امریکہ کا زوال اس وقت شروع ہوا جب صدر اباما نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد خود ساختہ سرخ لکیر کو نظر انداز کیا اور فوجی حکمت عملی کے استعمال میں ہچکچاہٹ دکھائی۔ اس دن روس، ترکی اور چین کو یہ اندازہ ہوا کہ وہ اب امریکہ کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور میں اس زوال میں مزید تیزی آئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کے فوج کی کمزوری کا عیاں ہونا ہے، جسے پوری دنیا نے افغانستان اور عراق میں دیکھا۔
دوسرا عنصر کسی ملک کی کمزوری کا یہ ہے کہ جب فوج اپنے پیشہ ور معاملات کی بجائے سول حکومت چلانے میں مصروف ہو تو ملک کا دفاع کمزور ہوتا ہے۔ مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مصر کے پاس ایک بہت منظم اور اسلحے سے لیس فوج ہے مگر اس کے باوجود وہ کئی دفعہ اسرائیل کی بہت چھوٹی فوج سے شکست کھا چکی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے فوجی جرنیل اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے کاروبارِ حکومت چلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی دلچسپی جنگی تیاری سے زیادہ سیاست میں رہی ہے۔
جنرل باجوہ کے روزانہ کے معمول پر نظر دوڑائیں تو وہ اکثر کبھی سفیروں سے مل رہے ہیں کبھی بیرون ملک دوروں پر ہیں اور کبھی تاجروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہی نہیں حاضر سروس جنرل سول ادارے چلا رہے ہیں جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ جنرل ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرا یہ کہ کسی ملک کے پاس بہترین ہتھیار ہو سکتے ہیں مگر اگر اس میں پلاننگ، تربیت اور ترغیب کا فقدان ہو تو وہ دفاع میں ناکام رہتی ہے۔ کسی بھی ملک کو دنیا کو دکھانا پڑتا ہے کہ ان میں دفاع کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
چین نے جب آتشیں اسلحہ استعمال کیے بغیر بھارتی فوجیوں کو لداخ میں نشانہ بنایا تو دنیا کو یہی پیغام دینا تھا کہ وہ اپنے ملک کا ہر حال میں دفاع کریں گے، چاہے وسائل ہوں یا نہ ہوں اور ان کے فوجی مکمل تربیت یافتہ ہیں۔
ہماری حکومت نے بھی یہ غلط پالیسی اپنائی کہ جس سے دنیا کو پیغام بھیجا کہ ہم فوجی کارروائی سے ڈرتے ہیں یا ہمارے پاس اس کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو ہمت ہوئی کہ وہ نہ صرف کشمیر پر ناجائز قبضہ کرے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر بھی رال ٹپکائے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں حکومت، وزارت دفاع اور مسلح افواج کے سربراہوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری بنیاد پر جنگی مشقوں کی تیاری کی جائے اور اس کی تاریخوں کا جلد از جلد اعلان کیا جائے۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ ہماری تینوں افواج ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہیں۔ ہماری افواج کے مختلف شعبے اپنے طور پر مشقیں کرتے ہیں مگر تینوں افواج پر مشتمل مشترکہ مشق کیے ہوئے ہمیں دس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
ہم کسی سے جنگ نہیں چاہتے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا ہمیں کمزور سمجھے۔ جنگی مشق کے ذریعے ہم یہ پیغام دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ میں یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ حاضر سروس فوجی افسروں کی سول اداروں میں تعیناتی پر پابندی لگائی جائے۔ اگر کسی کو سول عہدے سے دلچسپی ہے تو ریٹائرمنٹ لے کر اس عہدے کی درخواست دے۔ مجھے امید ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں اس مطالبے کی حمایت کریں گی۔
خطے کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور ایسی صورت حال میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں، لہذا دفاع کی تیاری ہی تحفظ کی ضمانت ہے۔