80 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے بولنگ کیمپ میں ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک تیز رفتار بولر موجود تھا جو کسی بھی ٹیم کی بیٹنگ منٹوں میں تہس نہس کردیتا تھا۔
لٹل ماسٹر سنیل گواسکر ہمیشہ کہتے ہیں کہ ویسٹ انڈیز میں اس سیاہ آندھی کا سامنا کرتے ہوئے دل دہل جاتے تھے۔ اس وقت چونکہ ہیلمٹ نہیں ہوا کرتے تھے تو زیادہ تر بلے باز ڈر وخوف کے عالم میں کھیلا کرتے تھے اور جتنا وقت وکٹ پر گزر جائے غنیمت سمجھتےتھے ۔
اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، کولن کرافٹ، جوئیل گارنر اور پھر میلکم مارشل، یہ وہ فائرنگ سکواڈ تھا جو دنیا کے مہان بلے بازوں کی سانسیں روک دیتا تھا۔
لیکن ذرا تصور کریں اس اس فائرنگ سکواڈ کے سامنے ایک منحنی سا نوجوان ہونٹوں پر مسکراہٹ چہرے پر اطمینان پیشانی پر بالوں کی لٹ اور کھیلنے کا انداز ایسا کہ ویوین رچرڈز جیسا بلے باز سلپ میں حیرانی سے دیکھے۔
اس کا فرنٹ فٹ پر ڈرائیو اور بیک فٹ پر سکوائر کٹ کالی آندھی کو متحیر کردیتا تھا۔
سیاہ گھنی داڑھی، نشیلی آنکھیں، متناسب قد وقامت اور دیوتائی حسن کے مالک وسیم حسن راجہ کو کرکٹ کی تاریخ میں ایک ایسےبلے باز کے روپ میں یاد رکھا جائے گا جو جب بھی کھیلا، بے خوف اور نڈر ہو کر کھیلا، ڈر اور خوف اس کی کتاب میں تھا ہی نہیں !!
آسٹریلیا کی تیز باؤنسی پرتھ کی پچ ہو یا برج ٹاؤن بارباڈوس کی تیز وکٹ یا فیروز شاہ کوٹلہ کی سپن وکٹ ، وہ ہر جگہ اپنے دلیرانہ انداز سے کھیلتے تھے۔
وسیم راجہ بائیں ہاتھ کے ایک سٹائلش جارحانہ بلے باز تھے۔ وہ آف سائڈ پر کسی بھی بولر کو اس کمال سے کھیلتے تھے کہ دیکھنےوالا شاٹ کی خوبصورتی اور ان کی ٹائمنگ سے مبہوت ہو جائے۔
ان کےکور ڈرائیو کے متعلق ایک دفعہ حنیف محمد نے کہا تھا کہ اگردس فیلڈر بھی کورز میں کھڑے کردیے جائیں تو وسیم راجہ ان کے درمیان سے گیند باؤنڈری پر پہنچادے گا۔
وہ لیگ بریک گگلی بولر بھی تھے اور پارٹنرشپ بریکر کے طور پر مشہور تھے۔ کئی مواقع پر اپنی تیز لیگ بریک سے پاکستان کو فتح دلائی۔
تیز لیگ بریک کے اصل موجد وہی تھے جسے بعد میں انیل کمبلے اور شاہد آفریدی نے زیادہ شہرت بخشی۔ فیلڈنگ میں وہ ایک پھرتیلےفیلڈر مانے جاتے تھے۔
کالی آندھی سے ٹکراؤ
وسیم راجہ نے 77-1976 کے دورہ ویسٹ انڈیز میں اس وقت بے مثال بلے بازی کی جب پاکستان ٹیم کے بڑے بڑے نام جدوجہد کررہےتھے۔
تیز اور باؤنسی وکٹوں پر خطرناک بولنگ اٹیک کے سامنے وسیم راجہ نے ایک سنچری اور پانچ نصف سنچری کی مدد سے 517 رنز بنا کر دنیائے کرکٹ کو حیران کردیا تھا۔
چھٹے یاساتویں نمبر پر کھیل کر بھی وہ اتنے ہی مشہور تھے جتنے اوپری نمبروں پرکھیلنے والے!
اس سے قبل ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں وہ کراچی ٹیسٹ میں سنچری بنا چکے تھے لیکن اسی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ان کا ایسے عالم میں بیٹنگ کے لیے آنا کہ پاؤں پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور ہلنا ناممکن تھا لیکن چونکہ پاکستان ٹیسٹ ہارنے کی پوزیشن میں تھا اس لیے وہ ٹیسٹ بچانے زخمی صورت میں آگئے۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف 11 ٹیسٹ میچز میں 919 رنز انھیں دنیا کے عظیم بلے بازوں میں شمار کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بھارت کے خلاف متاثر کن ریکارڈ
ویسٹ انڈیز کے بعد وسیم راجہ بھارت کے خلاف ایک زبردست بلے باز نظر آتے ہیں۔
1979-80 میں بھارت کے دورے پر دہلی ٹیسٹ میں ان کی 97 رنز کی اننگز ایک شاندار اننگز میں شمار کی جاتی ہے۔ اس دورے پر ایمپائرنگ کے بدترین معیار نے وسیم راجہ سے دو سنچریاں چھین لیں۔
دہلی ٹیسٹ میں کپل دیو کی ایک پیٹ پر لگنے والی گیند پر انھیں ایل بی ڈبلیو دے دیا گیا۔ جبکہ کان پور ٹیسٹ میں اپنی عادت کے برخلاف میچ بچانے کے لیے سست کھیلے لیکن 94 رنز کی اننگز پر ناٹ آؤٹ رہے، ان کے سامنے پوری ٹیم پویلین پلٹ گئی اور راجہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔
ناگ پور ٹیسٹ
1983 کے دورے پر ناگپور ٹیسٹ میں ان کے 125 رنز ایک یادگار اننگز تھی۔ انھوں نے بھارت کے سپنرز کی دل کھول کر کلاس لی تھی۔ اس ٹیسٹ میں انھوں نے بولنگ بھی بہت اچھی کی اور چار وکٹ لیے تاہم ٹیسٹ ڈرا ہوگیا۔
کیرئیر میں اتار چڑھاؤ
وسیم راجہ کے چھوٹے بھائی اور سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ کہتے ہیں کہ وسیم راجہ جتنے باصلاحیت کرکٹر تھے انھیں نہ اتنےمواقع ملے اور نہ ہی وہ مقام ملا۔
وہ ہر میچ کھیلنے کے بعد سیلیکٹرز کے ریڈار پر رہتے تھے۔ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انھیں پچاس سے زائد ٹیسٹ کھیلنے کے بعد بھی نو آموز کرکٹر کے طور پر سمجھا جاتا تھا ان کا نہ کوئی گروپ تھا اور نہ کوئی سپورٹر۔
وہ ہمیشہ اپنی کارکردگی پر یقین رکھتے تھے وہ گروپنگ سے نفرت کرتے تھے حالانکہ 80 کی دہائی میں گروپنگ عروج پر تھی۔
اس کی وجہ کیا تھی؟
وسیم راجہ ایک خاموش کم گواور خود میں گم رہنے والے انسان تھے۔ وہ محلاتی سازشوں سے دور رہتے تھے اور بورڈ کے اعلی حکام کی خوشامدیں نہیں کرتے تھے۔ انھیں کسی کی خوشامد یا بے جا تعریفوں سے چڑ تھی۔ شاید یہی وجہ تھی سپر سٹارز کے ساتھ ان کے تعلقات گراؤنڈ کی حد تک رہتے تھے۔
1982 میں جاوید میاں داد کے خلاف بغاوت میں حصہ نہ بننے پر ان کا کیرئیر بعد میں بننے والے کپتان نے ختم کردیا۔ حالانکہ اپنےکیرئیر کے اختتام سے دو ٹیسٹ قبل وہ انگلینڈ کے خلاف سنچری سکور کرچکے تھے لیکن مطلق العنان کپتان کو راجہ کی ملک سےوفاداری پسند نہیں آئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیوزی لینڈ کے خلاف 1973 میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے وسیم راجہ کا نشیب وفراز سے بھرپور کیرئیر محض 32 برس کی عمرمیں اختتام کو پہنچ گیا۔ جس کے پیچھے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں تھیں لیکن انھوں نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور نہ کبھی شکایت کی کیونکہ انھوں نے کرکٹ عشق کے طور پر اپنائی تھی اور عشق میں شکوہ وشکایت عاشقی کے اصولوں کے خلاف ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں 57 ٹیسٹ میچوں میں 2821 رنز اگرچہ اعداد وشمار کے لحاظ سے تسلی بخش ہیں لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ تقریباً 2000 رنزپاکستان سے باہر سکور کیے ہیں۔ جہاں پاکستان کے اکثر بڑے بلے باز ناکام نظر آتے ہیں۔
بولنگ میں وہ 51 وکٹوں کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کا مخصوص بولنگ انداز تماشائیوں کو بہت بھاتا تھا۔
محدود اوورز کرکٹ
اپنے مزاج کے لحاظ سے وہ محدود اوورز کی کرکٹ کے آئیڈیل کھلاڑی تھے لیکن وہاں بھی پسند ناپسند کا گیم چلتا رہا۔ 1975 اور1979 کے ورلڈ کپ میں انھوں نے کئی اچھی اننگز کھیلیں لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف متاثر کن ریکارڈ کے باوجود انھیں سیمی فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈراپ کرکے ہارون رشید کو ترجیح دی گئی اور نتیجہ شکست رہا۔
دو بھائیوں کی شرکت
1984 میں انگلینڈ کے خلاف کراچی میں وسیم راجہ کے ساتھ رمیز راجہ کو ٹیسٹ کیپ دی گئی یہ پاکستان میں دوسرا موقع تھا جب محمد برادران کے بعد راجہ برادران ایک ساتھ کھیل رہے تھے۔ رمیز راجہ بعد میں مشہور کرکٹر اور کپتان بنے۔
ذاتی زندگی
وسیم راجہ پاکستان کے گنے چنے اعلی تعلیم یافتہ کرکٹرز میں سے ایک تھے۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں فرسٹ ڈویژن میں ڈگری حاصل کی۔
وہ ریٹائر ہونے کے بعد انگلینڈ شفٹ ہوگئے جہاں ایک انگریز خاتون سے شادی کرلی۔
اپنے تعلیم کے شوق کو جاری رکھتے ہوئے ڈرہم یونیورسٹی سے مزید اعلی تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں ایک سکول میں جغرافیہ اورحساب پڑھانے لگے۔
ٹیسٹ میچ ریفری
وسیم راجہ 2002 سے 2004 تک آئی سی سی ریفری بھی رہے اسی طرح پاکستان جونئیر ٹیم کی کوچنگ بھی کرتے رہے وہ ایک کوالیفائیڈ کوچ تھے لیکن پاکستان نے کبھی ان کی خدمات سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا۔
خاموشی سے کرکٹ کھیلنے والے وسیم راجہ خاموشی سے ہی دنیا سے چلے گئے ۔
23 اگست 2006 کو سرے لندن میں ایک ویٹرینز میچ کھیلتے ہوئے انھیں سینے میں تکلیف ہوئی جس پر وہ گراؤنڈ سے باہر آنے لگے لیکن جان لیوا ہارٹ اٹیک کے سبب گراؤنڈ میں گرگئے اور اس طرح ہزاروں دلوں پر اپنی وجاہت اور سٹائلش کھیل سے حکومت کرنے والا دلوں کا راجہ محض 54 برس کی عمر میں اس جہان فانی کو خیر باد کہہ گیا۔
وسیم راجہ کو کرکٹ کی دنیا میں ایک ایسے کھلاڑی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے بے خوف کرکٹ کھیلی اور کبھی بولرز کو حاوی نہیں ہونے دیا۔
وہ کبھی منصوبہ بندی سے نہیں کھیلتے تھے بلکہ ہر گیند کو اس کی میرٹ پر کھیلتے تھے اگر انھیں اننگز کیپ ہلی گیند بھی شاٹ کے لیے ملتی تو وہ بلا دھڑک شاٹ لگاتے تھے۔ وہ مشکل حالات میں بھی اپنا نیچرل گیم کھیلتے تھے۔
پاکستان کرکٹ نے بہت سے ہیروں کی ناقدری کی ان میں سے ایک وسیم راجہ بھی تھے جنہیں سپر سٹار پاور میں کبھی بھی صحیح مقام نہ مل سکا۔