معاشرتی معاملات کے ماہرین کی رائے کے مطابق مذہبی معاشروں میں عقائد پر مبنی رسومات کے ذریعے معاشرتی نظام قائم ہوتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے نظام میں مذہب اور عقائد، سیاسی جماعتوں یا شہری اداروں کی جانب سے قائدانہ کردار ادا نہ کر سکنے کی صورت میں اپنا کردار مزید بہتر طریقے سے نبھاتے ہیں۔
مذہبی تقاریب کے ذریعے معاشرے میں عقائد کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اگر ایران کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ان تقریبات میں سب سے اہم عاشورہ کی رسوم ہیں۔
ان میں ایک طرف تو سوگ کے لیے ادا کیے جانے والے مختلف اعمال کی ثقافتی اہمیت ہے۔ دوسری طرف ، شہروں اور دیہاتوں میں یکساں طور پر اس کا منعقد ہونا ہے جو کسی بھی ملک کی باہمی وحدت کے لیے ایک لازم امر ہے، اور اس کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے انسانوں کی ایک کثیر تعداد پیدا ہو جاتی ہے جو عقائد کے دائرے میں بندھے رہنے کے لیے مذہبی حکومت پر انحصار کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔
ایک لاکھ رجسٹرڈ ماتمی وفود کے ساتھ ایران میں محرم ایک بہت منافع بخش صنعت بن چکا ہے۔ اس میں لاکھوں تومان کی آمدن ہے اور جیسے کوئی بھی اور کمرشل تقریب ہوتی ہے عین ویسے ہی اس کے لیے سپانسر اور اشتہاروں کا بھی سلسلہ درکار ہوتا ہے۔
پھر ان تقریبات کے لیے ہال خریدنا یا کرائے پر لینا، آڈیو ویڈیو فلم بندی کرنا، کھانے پکنا اور ان کی بطور تبرک تقسیم ہونا یہ سب بہت وسیع معاشی سرگرمیاں ہیں۔
سیاسی مقاصد کے لیے محرم کی مذہبی رسومات کا استعمال ایرانی رہنما خمینی کی تقاریر میں بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
مذہبی رسومات کے فرائض
2017 میں پاسداران انقلاب کے سہ ماہی جریدے برائے سٹریٹیجک سٹڈیز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مذہبی وفود کو ایران میں سافٹ طاقت کا ایک مضبوط ستون سمجھا جاتا ہے اور ان کے افعال ایرانی معاشرے میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا کہ ایام محرم کی رسومات اور یہ کلچر شیعوں اور اسلام کی سب سے اہم بین الاقوامی شناخت ہے۔ ان کے اجتماعی جلسے جلوسوں میں ہیبت، رعب ، وسعت اور ابلاغ عامہ جیسی خصوصیات کی بھی نشاندہی کی گئی۔
ایرانی رہنما خمینی نے اپنی وصیت میں بھی اس بات پر زور دیا کہ سیاسی طور پر یہ تقریبات مسلمانوں کو متحد کرتی ہیں۔
عاشورے کی رسومات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں بہت سے معاشرتی عوامل نظر آتے ہیں۔ جیسے لوگوں کا اکٹھا ہونا، کسی ایک ہستی کو مرکز مان کر ان کے گرد متحد رہنا، ہزاروں افراد کا نظم ضبط کے ساتھ معاملات رواں رکھنا، معاشرتی بندشیں سخت لیکن سب کے لیے یکساں رکھنا اور اکٹھے ہو کر ایک نظام کی سربلندی کے لیے چلتے رہنا۔
اس کا مطلب یوں سمجھیں کہ ایسے جلوس انسانی شخصیت میں خود احتسابی اور ضبط نفس پیدا کرتے ہیں۔ اجتماعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ایثار، قربانی، برداشت ، مظلوم کی مدد کرنا، یہ سب سبق ان اجتماعات سے ملتے ہیں۔
لیکن یہ سب ایک ایسے نظام کے اندر وقوع پذیر ہوتا ہے جو اس طرح ہر سال اپنی قدریں بار بار دہرا کر لوگوں کو ذہن نشین کرواتا ہے اور ریاست کی بنیادوں کو میسر یکجہتی اور استحکام بڑھتا جاتا ہے۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں عوام انفرادی اور اجتماعی طور پہ مزید فرمانبردار ہوتے جاتے ہیں اور پایہ تخت کی بنیادیں مزید طاقتور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
مذہبی اجتماعات ریاستی پروپیگنڈا کے لیے ایک مضبوط نظام کے طور ہر
سوگ کے دنوں میں ماتمی جلوس کالے لباس والے شرکا کے ساتھ پہلی بار اس وقت مقبول ہوئے جب صفوید ریاست ایران میں اپنے عروج پر تھی۔
ایک طاقتور شیعہ ریاست کے طور پر صفوید دور میں ماتمی رسومات کو ایک نئی شکل دی گئی۔ مقدس ایام میں بھوکا رہنے اور تعزیوں کی شرکت کا سراغ بھی ہمیں اس زمانے سے ملتا ہے۔
اس دور کے بعد ہمیں مستقل طور پر علما اور مدرسوں کا نظام ایران کے ریاستی معاملات کے ساتھ ساتھ ایک ذیلی حیثیت میں چلتا اور مضبوط تر ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ رسومات ایک مرتبہ شروع ہونے کے بعد صدیوں تک بلاتعطل جاری رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کی نیشنل لائبریری میں موجود دستاویزات کے مطابق پہلوی حکومت کے پہلے دور میں ان رسومات کو چند پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رضا شاہ کی حکومت کے دوران خود کو زنجیروں میں جکڑ لینا یا اس جیسی چند اور رسومات پر بابندیاں عائد کی گئیں۔ یہ پالیسیاں جدید دور سے ہم آہنگ ہونے کی ایک کوشش تھیں اور سوگ کی ثقافت میں ایک تبدیلی کا باعث تھیں۔
محرم بطور ایک فائدہ مند صنعت
ایران میں دبے لفظوں ان خیالات کا اظہار عام ہے کہ محرم کے آمدن و اخراجات کی رقم کو ایرانی عوام کے لیے بنیادی سہولیات پہ خرچ کیا جائے۔ اس میں انفراسٹرکچر ، ہسپتال ، سکول سمیت قدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری نظام کی بھی بات کی جاتی ہے۔
اس نظریہ میں یہ استدلال کیا گیا ہے کہ نذر کی صورت کھانے کی تقسیم میں وسائل کا بے جا اسراف ہوتا ہے اور وہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پاتے۔
حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ایران میں سرکاری طور پر سوگواران کے 100،000 رجسٹرڈ وفود ہیں۔
2017 کے موسم گرما میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ان وفود کی تعداد 91،000 بتائی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی تعداد پچھلے کچھ سالوں میں مزید بڑھ گئی ہے۔
صرف تہران میں 19،000 رجسٹرڈ انجمنیں ہیں جنہیں ایرانی تبلیغی تنظیم سے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ جو اسلامی جمہوریہ کے تمام مالیاتی امور کی طرح ، شفاف نہیں ہے۔ ایک اور ادارہ جو ان تنظیموں کو مالی اعانت فراہم کرتا ہے وہ بلدیہ تہران ہے۔ گذشتہ سال بلدیہ کی جانب سے آٹھ ارب تومان انہین عطیہ کیے جانے کی خبر شائع ہوئی تھی۔
ایرانی اخبارات کے مطابق ، صرف عاشورہ کی دو راتوں کے لیے ملک بھر میں بننے والی قیمے کی نیاز لگ بھگ سات ارب تومان لاگت میں تیار ہوتی ہے۔
عاشورہ پر سب سے اہم معاشی سرگرمی کھانے کی نذر ہے جس میں چاول بھی شامل ہیں۔
پورے مالی سال کے دوران بکنے والے غیر ملکی، ہندوستانی اور پاکستانی چاول کا بیشتر حصہ محرم کے دنوں میں زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
محرم میں چینی، چاول اور بیشتر خوردنی اشیا سمیت پلاسٹک کے برتنوں ، کچرے کے تھیلوں اور دسترخوانوں کی کھپت میں بھی دوگنا اضافہ نوٹ کیا جاتا ہے۔
ایران میں یونین برائے پلاسٹک مینوفیکچرر و فروخت کنندگان کے صدر رحیم موگیمی کے مطابق ان اشیا کی قیمت میں 35 فیصد تک اضافہ بھی ہونے کے امکانات ہیں۔
مذہبی رسومات کا سیاسی استعمال اور توہم پرستی کا فروغ
اسلام کے اخلاقی اصول لوگوں کی نجی اور عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔
اس لیے اسلام لوگوں کی نجی اور عوامی دونوں زندگیوں پر اثر رکھتا ہے نیز اسلام میں مذہب اور حکومت کے درمیان کوئی دوری نہیں ہے۔
ایرانی رہنما خمینی کے مطابق ایک مذہبی حکومت کا نصب العین 'اسلام کی راہ میں آنے والوں کو تعلیم دینا، جدوجہد پر آمادہ کرنا، شہادت کا جذبہ بیدار کرنا ، عوام کو ظالموں کے خلاف منظم کرنا، اسلام کی حکمرانی کے لیے کوشش کرنا، اسلامی نظام حکومت کا تحفظ کرنا اور اسلامی تحریکوں کے آغاز کے لیے بنیاد رکھنا۔' ہوتا ہے۔
ان بیانات میں پوشیدہ تمام اقدار سیاسی مقاصد کی حامل بھی ہیں۔ مثلاً: ایسے انسان کو تربیت دینا جو دین کا فرمانبردار ہو ، اسلامی نظام کی اقدار کے حصول میں 'شہادت' کا خواہشمند بھی ہو، اس نظام کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہو اور اسی نظام کو اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر بھی پھیلائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریفرنس:
(۱) تدوین راهبردهای تقویت کارکردهای هیئتهای مذهبی با رویکرد ارتقاء قدرت نرم جمهوری اسلامی ایران، نویسندگان عباس بابایی و احمد باصری اسلامی
(۲) فضیلت و آیین مجالس ذکر اهلبیت…. واحد پژوهش دفتر فرهنگی فخر الائمه، جمعی از نویسندگان، ۱۳۷۸
(۳) جمعبندی از پژوهش توسط عباس بابایی، احمد باصری اسلامی، مهدی ناظمی اردکانی و حجتالله مرادی در فصلنامه مطالعات راهبردی بسیج، ۱۳۹۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون میں جن خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے وہ مصنف کے اپنے ہیں اور ادارے کا ان کی رائے سے مطابقت رکھنا ضروری نہیں۔